سوال تو بنتا ہے

411

قومی انتخابات میں حصہ لینے والے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے امیدواروں کی کل تعداد 22,751 ہے‘ ہر امیدوار کے لیے الیکشن کمیشن نے انتخابی اخراجات کی ایک حد مقرر کی ہوئی ہے‘ ان امیدواروں کی جانب سے ایک محتاط اندازے میں بات کی جائے تو کم از کم دس ارب روپے کی رقم بنتی ہے جو انتخابی اخراجات کے لیے استعمال میں ہے‘ ہر امیدوار کا بینک اکائونٹ الیکشن کمیشن کے پاس ہے اور وہ اس وقت ہر لحاظ سے با اختیار بھی ہے‘ کیا وہ بینکوں سے پوچھ سکتا ہے کہ ان امیدواروں کی جانب سے اپنے کائونٹس سے انتخابی شیڈول جاری ہونے سے پندرہ دن پہلے اور بعد میں بینکوں سے کتنی رقم نکالی گئی‘ آخر جو رقم خرچ ہورہی ہے کہیں سے تو آئی ہے ناں؟ یہ کالا دھن ہے یا سفید؟ الیکشن کمیشن امیدواروں سے پوچھے‘ پیسہ جو خرچ کرہے ہیں‘ وہ پیسہ کہاں سے آیا ہے‘ انتخابی امیدوار جو اخراجات کررہے ہیں‘ اس رقم کے بارے میں بینک بھی تفصیلات جاری کریں کہ ایک ماہ کے دوران کتنی رقم بینکوں سے نکالی گئی ہے‘ اگر یہ رقم بینک سے نہیں نکالی گئی اور خرچ بھی ہورہی ہے تو پھر یہ سوال بنتا ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا ہے؟ امیدواروں نے پلاٹ‘ گھر‘ زمین فروخت کی ہے یا قرض لیا ہے یا بچت کی گئی رقم ہی سے کام چلا رہے ہیں کچھ تو ہے یہ پیسہ کہیں سے تو آیا ہی ہے‘ جہاں سے بھی آیا اگر اس کی تفصیلات بھی عوام کو اور ووٹرز کو مل جائیں تو اس میں کیا ہرج ہے؟ کس کو نہیں علم کہ ہر ملک کی طرح یہاں بھی بلیک مارکیٹ ہے کیا یہی رقم انتخابی اخراجات کے لیے سفید دھن بنائی جارہی ہے اگر کوشش کی جائے تو الیکشن کمیشن اس رقم کی تفصیلات معلوم کرسکتا ہے اس سے اگر کالا دھن استعمال ہورہا ہے تو یہ رک بھی سکتا ہے۔

یہ بات تو یقین سے ہی جاسکتی ہے کہ کالے دھن والے لوگ ملک کیسے چلائیں گے؟ البتہ یہ بات بھی ہے کہ اسٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن آف پاکستان یا کسی دوسرے سرکاری ادارے یا سول سوسائٹی کے پلیٹ فارم کی جانب سے انتخابی مہم کی مالی اعانت کے لیے رقوم کی منتقلی پر نگرانی کم ہی ہوتی ہے لیکن اس بار ہورہی ہے انتخابی مہم میں پرنٹرز، پینٹرز، ایڈورٹائزرز، کیٹررز، ڈیکوریٹرز، ٹرانسپورٹرز، پرائیویٹ جیٹ آپریٹرز، سوشل میڈیا وارئیرز، چینل آپریٹرز، کموڈٹی ڈیلرز، تنخواہ دار ورکرز وغیرہ سے خدمات حاصل کرنا شامل ہوتا ہے۔ یوں کافی رقم کا لین دین ہوتا ہے جس سے اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ کھوج لگانے سے ایک بات معلوم ہوئی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور الیکشن کمیشن کی طرف سے کاغذات نامزدگی کو حتمی شکل دینے کے بعد اب یا 2018ء انتخابات میں بینکوں سے رقم نکالنے کی سطح میں کوئی خاص اضافہ نہیں دیکھا گیا انتخابات کے مالیاتی پہلوؤں کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں اضافے کی ضرورت ضرور محسوس ہونی چاہیے کیونکہ اخراجات کا تخمینہ اربوں روپے میں ہے لہٰذا اس کی منی ٹریل کا سراغ لگانا ضروری ہے‘ اگرچہ الیکشن ایکٹ وفاقی یا صوبائی سطح پر نشستیں حاصل کرنے کے خواہش مند امیدواروں کے لیے اخراجات کی حد متعین کرتا ہے انتخابی قانون کے مطابق تمام امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت ایک علٰیحدہ انتخابی اکاؤنٹ کھولنے کا پابند کیا گیا ہے اب اگر قومی اسمبلی کی تمام 266 نشستوں کے امیدوار اخراجات کی حد کی پابندی کرتے ہیں‘ جس طرح بائیس ہزار سے زائد امیدوار ہیں‘ اصل تعداد 22 ہزار 751 ہے الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ ابھی تک خاموش ہے الیکشن کمیشن کا پولیٹیکل فنانس سیل تمام امیدواروں سے مالی ریکارڈ اکٹھا کرتا ہے۔ اصل چیلنج اس حقیقت میں مضمر ہے کہ ہر کوئی اس کا سنجیدگی سے جواب نہیں دیتا یا قواعد و ضوابط کو نافذ کرنے کے قانونی طریقہ کار اور فالو اپ اقدامات اب تک کافی حد تک غیر موثر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انتخابی مہم کے لیے رقوم کی منتقلی میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کسی انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے یہ ووٹرز کا حق ہے کہ وہ جانیں کہ کون کس کو اور کس مقصد کے لیے فنڈز فراہم کر رہا ہے۔