منہ شگافی

669

انگریزوں نے “Sorry” کا لفظ دے کر ہماری عزت ِ نفس اور قومی حمیت کے احساس کو نست و نابود کر دیا ہے کسی کے ساتھ بھی بد سلوکی اور بدتمیزی کرکے Sorry کہہ دیں اور دودھ کے دْھلے بلکہ ڈیٹول کے دْھلے بن جائیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اگر آپ Sorry قبول نہ کریں تو موقع پر موجود افراد آپ ہی کو مورد الزام ٹھیرائیں گے اور اصرار کریں گے کہ بھائی صاحب اس نے Sorry تو بول دیا ہے اب کیا اس کی جان لو گے؟

وطن ِ عزیز میں عدلیہ نے موشگافی اور حکومت نے منہ شگافی کا لفظ دے کر قوم کی روح کو بھی کچل دیا ہے وکلا موشگافی کرکے سائلین کو ذلیل و خوار کرتے ہیں اور سیاست دان منہ شگافی کر کے عوام کا منہ نوچتے رہتے ہیں۔

سیاست دان اور سیاسی مبصرین انتخابات کا مطالبہ کیا کرتے تھے تو حکومت اور حکومت کے ترجمان کہا کرتے تھے کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے یہ ہماری ذمے داری نہیں اور جب عدالت ِ عظمیٰ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے الیکشن کرانے کی تاریخ کا اعلان کردیا اور ساتھ یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ یہ تاریخ پتھر پر لکیر ہے مگر جن کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے ہیں اْنہوں نے پارلیمنٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرار داد پیش کی اور فوری طور پر منظور بھی کرالی۔ حالانکہ کہا جارہا ہے کہ قورم پورا نہیں تھا اس حکومتی منہ شگافی پر بہت لے دے ہورہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ قرارداد توہین ِ عدالت کے زمرے میں آتی ہے الیکشن کسی صورت اور کسی قیمت پر بھی ملتوی نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ عدالت ِ عظمیٰ کا حکم ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا ارشادِ گرامی ہے کہ فروری کے مہینے میں سخت سردی پڑتی ہے اس لیے الیکشن کی تاریخ میں توسیع کی جائے کیونکہ شدید سردی اور برفباری میں عوام گھروں سے نہیں نکلیں گے جس کے نتیجے میں ووٹ بہت کم پڑیں گے۔ مگر یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ حکومت سازی کے لیے ووٹوں کی تعداد کوئی وقعت نہیں رکھتی البتہ اگر جمہوری ممالک کی طرح پچاس فی صد ووٹ لینا ضروری ہوتا تو پھر اس معاملے پر سوچا جا سکتا ہے مگر ہمارے ہاں تو سیاسی جماعتوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے المیہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس پر غور کرنے پر آمادہ نہیں بدنصیبی یہ بھی ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ جس معاملے میں دلچسپی رکھتی ہے جب چاہے اس پر از خود نوٹس لینے کا موقع کبھی نہیں گنواتی مگر سیاسی جماعتوں کی بہتات پر کوئی نوٹس نہیں لیتی۔ حالانکہ اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ وطن ِ عزیز میں معاشی اور سیاسی بحرانوں کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی بہتات ہے اور اس حقیقت سے بھی سب ہی واقف ہیں کہ بہتات خرابی کا سبب بنتی ہے۔

دونوں تباہ ہوگئے، ختم کرو یہ معرکے
اہلِ ستم نہیں نہیں دل زدگاہ نہیں نہیں

بلوچستان کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خوف سے لوگ گھروں سے نہیں نکلیں گے اور جب عوام ووٹ ہی نہیں ڈالیں گے تو الیکشن بے معنی ہوگا بہتر ہے کہ الیکشن چند ماہ کے لیے ملتوی کر دیے جائیں۔ الیکشن ملتوی کرانے کے لیے یہ جواز بے معنی ہے شدید سردی میں الیکشن ہوتے رہے ہیں اور جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو کوشش کے باوجود اس پر کنٹرول پانا انتہائی مشکل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام اس معاملے میں حکومت کا ساتھ دینے میں سنجیدہ نہیں اگر عوام کسی بھی اجنبی کو دیکھے تو پولیس کو مطلع کریں اسی طرح دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے۔