سچ تو یہ ہے

730

الیکشن قریب ہی نہیں عنقریب ہیں۔ اگلا مہینہ الیکشن کا مہینہ ہے۔ ہمارے بیش تر بڑے بڑے سیاستدان عمر کی آخری حدوں پر ہیں۔ ان کی جسمانی معذوریاں، امراض اور صحت کی مجموعی صورتحال دیکھیں تو لگتا ہے اب گئے کہ تب گئے لیکن اقتدارکی خواہش، تگ ودو اور کوششیں دیکھیں تو گمان ہوتا ہے کہ اگلے سو برس کی زندگی کی ضمانت کہیں سے لکھوا کر لائے ہیں۔ سیاست دان ہی نہیں ججز، جرنیلز، بیوروکریٹس اور افسران سب ہی آخری سانس تک اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں جو آخری سانس ان کے خیال میں کبھی نہیں آنی ہیں۔ ان کی غلطی نہیں۔ حکومت کے تام جھام، پروٹوکولز، عیش وعشرت، ہماہمی، گارڈ آف آنرز، پرائیوٹ جہاز، بیرونی دورے، دنیا کے بڑے بڑے مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام، سرکاری اور غیر سرکاری دعوتیں، سیرو تفریح کے مواقع، ارضی جنتوں کے شراب، شباب اور کباب کے مشاغل اور لطف در لطف یہ کہ بنا کسی ذاتی خرچے کے، سب کچھ سرکار اور عوام کے ٹیکسوں سے۔ کون ہے جو انکار کرنا تو درکنار اس سے دوری کا سوچ بھی سکے۔ چودھری شجاعت حسین کی یاداشتیں ’’سچ تو یہ ہے‘‘ آج کل ہمارے زیر مطالعہ ہے جس میں میاں نواز شریف کے بارے میں ان کا لہجہ تلخ ہے۔ اس میں 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ان کے مصر، لیبیا اور شام کے دوروں کا احوال ہے۔ یہ بے ضرر اور سادہ سے دورے تھے جن پر کہیں ایک حرف تنقید نہیں کہا گیا لیکن بین السطور دیکھیں گے تو ان میں سامان عیش وعشرت افراط سے دکھائی دے گا!!! سوچیے وہ بیرونی ممالک کے دورے جن میں عیاشیوں کی افراط، فضول خرچیوں، اللے تللوں اور ڈالروں کے زیاں پر ملک اور بیرون ملک میڈیا اچھل پڑتا ہے ان میں کیا حال ہوتا ہوگا۔ اب آئیے ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کی طرف:

مصر کے صدر حسنی مبارک سے ملاقات کے بارے میں چودھری شجاعت نے ابتدا میں اس تلخی کے ازالے کا احوال بیان کیا جو جرمنی میں ایک کانفرنس کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور صدر حسنی مبارک کے درمیان ہوگئی تھی۔ صدر حسنی مبارک پشاور جیل میں بند چند قیدیوں کی مصر کو حوالگی چاہتے تھے جو ان کے بقول ان کے قتل کے درپے تھے۔ صدر مبارک کے بار بار اصرار کے باوجود نواز شریف بضد تھے کہ پشاور جیل میں وہ لوگ نہیں ہیں۔ صدر حسنی مبارک کا کہنا تھا کہ اس پر انہیں غصہ آگیا اور انہوں نے کچھ سخت الفاظ استعمال کردیے تھے جس پر اب مجھے خود بھی افسوس ہے۔ ’’یہ بات ہوچکی تو میں نے صدر حسنی مبارک کو ایٹمی دھماکوں کے بارے میں بریفنگ دی۔ انہوں نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔ پھر انہوں نے عربی میں اپنے وزیر داخلہ سے پوچھا کہ آپ نے ان کو مصر کی سیر بھی کروائی ہے یا نہیں؟ جب انہوں نے انگریزی کے الفاظ ’’بیلے ڈانس‘‘ استعمال کیا تو مجھے تھوڑی بہت سمجھ آگئی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بعد میں مصری وزیرداخلہ کی زبانی پتا چلا کہ صدر حسنی مبارک کہہ رہے تھے کہ مصر کی سب سے اچھی رقاصہ کو بلائیں اور مہمانوں کو اس کا بیلے رقص دکھا ئیں۔ مصری وزیر داخلہ نے رقاصہ کا پتا کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ الیگزینڈریا گئی ہوئی ہے۔ مصری وزیرداخلہ کے حکم پر نائٹ وژن ہیلی کاپٹر پر رقاصہ کو الیگزینڈریا سے بلوایا گیا اور رات گئے اس نے ہمارے اعزاز میں اپنا روایتی شو پیش کیا‘‘۔

کرنل قذافی سے ملاقات کے بارے میں چودھری شجاعت کہتے ہیں ’’ہم تیونس سے بذریعہ روڈ طرابلس پہنچے۔ وہاں سے خصوصی طیارے میں ہمیں ایک خفیہ مقام پر پہنچایا گیا۔ وہاں سے بذریعہ کار ہم آگے روانہ ہو گئے۔ ایک صحرائی مقام سے ریگستان کا سفر شروع ہو گیا۔ ایک لمبے سفر کے بعد ہمیں دو خیمے نظر

آئے۔ وہیں ایک خیمے میں ہماری صدر قذافی سے ملاقات ہوئی۔ بات چیت شروع ہوئی تو ہم نے ان کے لہجے میں بڑی تلخی محسوس کی۔ کہنے لگے میں آپ کی بات بعد میں سنوں گا پہلے آپ میرے دو سوالوں کا جواب دیں۔ پہلا یہ کہ ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے آپ نے مجھے اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔ دوسرا یہ کہ مسئلہ کشمیر پر مصالحت کرانے کے لیے میں نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم دونوں کو خطوط لکھے اور یہ پیش کش بھی کہ اگر کشمیر کو مکمل طور پر خود مختار ریاست بنادیا جائے تو نئی ریاست کو چلانے کے لیے ابتدائی طور پر جومالی وسائل درکار ہوں گے وہ لیبیا فراہم کرے گا۔ بھارتی وزیراعظم نے تو میرے اس خط کا جواب دیا لیکن آپ کے وزیراعظم نے اس کی زحمت گوارا نہیں کی۔ میں نے کہا آپ کا یہ شکوہ میں وزیراعظم تک پہنچادوں گا۔ پاکستانی سفیر نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر شروع کیا۔ کرنل قذافی نے اپنے سفیر سے بات کرنے کے بعد پاکستان کے سفیر کی طرف متوجہ ہوئے اور ہاتھ سے کچھ اس طرح بات کرنے سے روکا جیسے شٹ اپ کال دے رہے ہوں۔ میں نے صورت حال کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ لاہور میں میرے گھر کے قریب ہی ایک بہت بڑا اسٹیڈیم ہے۔ اس اسٹیڈیم کا نام آپ کے نام پر قذافی اسٹیڈیم ہے۔ اگر آپ کبھی پاکستان تشریف لائیں اور اس اسٹیڈیم میں خطاب کریں تو مجھے یقین ہے کہ لاکھوں پاکستانی یہاں آپ کو دیکھنے اور سننے کے لیے جمع ہو جائیں گے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں آپ کی مدد شامل ہے۔ پاکستان کے عوام آپ کو بہت چاہتے ہیں میرے اس طرح کہنے پر کرنل قذافی کے چہرے پر رونق آگئی۔ انہوں نے اپنے وزیرداخلہ اور دوسرے حکام کو اندر بلایا اور ان کو ہدایات جاری کیںکہ لیبیا کے دورے کے دوران ہمیں ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملوایا جائے اور تمام اہم اور سرکاری مقامات کی سیر کرائی جائے۔ انہوں نے خاص طور پر ہمیں وہ گھر دکھانے کی ہدایت بھی کی جہاں ان کو قتل کرنے کے لیے ان پر فضائی حملہ کیا گیا تھا اور ان کی کم سن نواسی شہید ہوگئی تھی۔ کرنل قذافی معجزانہ طور پر بچ گئے تھے کیونکہ صرف دو منٹ پہلے وہ کوئی چیز لینے کے لیے دوسرے کمرے میں چلے گئے تھے‘‘۔

شام کے صدر حافظ الاسد سے ملاقات سے پہلے ان کا چیف پروٹو کول افسر میرے پاس آیا اور کہا کہ صدر صاحب کی طبیعت ناساز ہے لہٰذا میری درخواست ہے کہ آپ اپنی ملاقات پندرہ بیس منٹ میں مکمل کرلیں۔ ہم ملاقات کے لیے صدارتی محل پہنچے تو صدر حافظ الاسد نے پرتپاک انداز سے ہمارا استقبال کیا۔ جب میں نے ان کو نیک خواہشات کا پیغام دیا تو انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو جا کر میری طرف سے کہیں وہ بہت موٹے ہورہے ہیں، کھانا کچھ کم کھایا کریں۔ میں نے ان کو ٹیلی ویژن پر دیکھا ہے۔ اس ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد میں نے ان کو پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بارے میں بریفنگ دی۔ ملاقات کے بعد صدر اسد نے پروٹو کول افسر کو ہدایت کی کہ جتنے دن ہم شام کے مہمان ہیں ہماری اچھے طریقے سے دیکھ بھال کریں اور ہمیں شام کی سیر بھی کروائیں۔ وہ افسر اسی روز ہمیں سیر کے لیے لتاخیہ بیچ پر لے گیا جہاں بشار الاسد اپنے اہل خانہ کے ساتھ موجود تھے اور ایک نیکر پہنے ہوئے سن باتھ لے رہے تھے۔ ایک عرب صنعت کار جن کی پاکستان میں بھی مختلف شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری ہے انہوں نے اپنے بحری جہاز پر ہمیں سمندر میں کافی آگے تک لے جانے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ جہاز کو سمندر کے درمیان کھڑا کردیا گیا تھا۔ جہاز کے اندر ہی دعوت کا اہتمام تھا۔ مختلف چھوٹی کشتیوں کے ذریعے سب مہمانوں کو جہاز تک لایا گیا۔ رات کے ایک بجے تک یہ دعوت چلتی رہی۔ ہم جہاز میں ہی سوئے اور صبح واپس دمشق آئے۔