ہم آغاز کے مجرم ہیں نہ انجام کے

562

پاکستان علماء کونسل کے چیئر مین حافظ طاہر اشرفی نے درست کہا ہے کہ اگر ہر مالدار شخص زکوٰۃ دے تو مانگنے والا کوئی نہ رہے۔ اْنہوں نے مشورہ دیا ہے کہ ہمیں اپنے گھروں سے نظامِ مصطفی کا آغاز کرنا چاہیے۔ سانحہ 9 مئی کے مجرموں کو سزا ملنی چاہیے کہ یہ حکومت کی ذمے داری ہے۔ ملک دشمنوں کو معافی دینے کا انجا م ہم دیکھ چکے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ کسی کے سمجھ میں یہ بات تو آئی کہ جب تک ہم نظامِ مصطفی کا آغاز اپنے گھروں سے نہیں کریں گے اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا کیونکہ نظامِ مصطفی کے نفاذ کے لیے معاشرے کا اسلامی ہونا ضروری ہے اور اس ضرورت کا تقاضا ہے کہ ہم قرآن و سنت کے تعین کردہ احکامات پر عمل کریں۔

یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ سب ہی اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے یہ منظر کسی آنکھ اوجھل نہیں کہ گرمی کے موسم میں کچھ لوگ ٹھنڈے پانی کا اہتمام کرتے ہیں یہ قابل ِ ستائش عمل ہے مگر باعث ِ ندامت یہ بات ہے کہ کولر کے ساتھ پانی کے گلاس کو زنجیر میں جکڑ دیا جاتا ہے کیونکہ گلاس کو کْھلا چھوڑ دیا جائے تو چوری ہوجاتا ہے مسجد سے ٹوٹیاں اور بلب غائب کردیے جاتے ہیں عباد ت گاہوں اور تقریبات سے جوتے چوری ہوجاتے ہیں گویا ہمارا معاشرہ شرمناک حد تک کرپٹ ہے۔

ہم اللہ تعالیٰ کے نام پر جان قربان کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں مگر اس کے احکامات پر عمل نہیں کرتے ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم میں اور خدا سے منکر لوگوں میں کیا فرق ہے کیونکہ خدا کو تو وہ بھی جانتے ہیں مگر مانتے نہیں۔ وطن عزیز کا بچہ بچہ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر عمل میں آیا پاکستان بنانے کا مقصد اسلامی معاشرہ قائم تھا مگر ایسانہیں ہو ا کیوں نہیں ہوا؟ یہ بات سوچنے اور توجہ دینے کے متقاضی ہے اور اس حقیقت پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ برصغیر کے بعض مذہبی شخصیات تحریک پاکستان پر تحفظات کا اظہار کیا کرتی تھیں اْن کا کہنا تھا کہ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا تو اس کا قیام نام کی حد تک اسلامی ہوگا اس کا آئین برائے نام ہی اسلامی ہوگا کیونکہ تحریک پاکستان کی حمایت کرنے والی قوتیں خود اسلام پر عمل پیرا نہیں اْن کا کردار اس قابل نہیں کہ وہ اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں کوئی کردار ادا کریں اور اسلامی نظام اسلامی معاشرے سے مشروط ہوتا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تکمیل اسلام پر عمل پیرا ہونے سے مشروط ہے۔

ایک بار سردار پٹیل نے کہا تھا کہ مسلم لیگ کے رہنما اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے تو بہت سے کانگریسی رہنما جیلوں سے مسلمان ہوکر نکلتے مگر ایسا نہ ہو سکا کیونکہ مسلم لیگی رہنما نام اور رہن سہن کے اعتبار سے مسلمان تھے۔ جیل میں اکثر کانگریسی رہنما مطالعہ کرکے اپنا وقت گزارتے تھے مسلم لیگی رہنما بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ان کی دیکھا دیکھی ہم بھی قرآن کا مطالعہ کرتے تھے چونکہ ہم نے قرآن پاک پڑھا نہیں تھا اس لیے ترجمہ شدہ قرآن پاک پڑھا کرتے تھے اور مسلم لیگی رہنما بھی قرآن کا ترجمہ پڑھا کرتے تھے کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ پاکستان وجود میں آیا تو اس کا مذہبی امور کا وزیر ایک ہندو کو بنایا گیا جو قائداعظم کی وفات کے بعد انڈیا چلا گیا بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ اور قوم بہاولپور کے معروف شاعر ظہور نظر کا یہ شعر گنگنانے پر مجبور ہو گئی۔

ہم آغاز کے مجرم تھے نہ انجام کے ہیں
ہاتھ میں ہاتھ لیے تمہیں نے، تم ہی نے چھوڑے