پاکستان کے فنا ہوجانے کا پروپیگنڈا کیوں ہوتا ہے؟

1011

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے نیشنل فارمرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہیجان، مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ جھوٹی خبروں سے یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے جیسے پاکستانی ریاست وجود کھوتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلمے کے نام پر دو ہی ریاستیں قائم ہوئیں۔ ایک ریاست مدینہ اور دوسری پاکستان۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات اتفاق نہیں ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان ایشیا کا تیزی سے ترقی کرنے والا ملک تھا مگر ہم نے قائداعظم کے تین زریں اصولوں ایمان، اتحاد اور تنظیم کو بھلا دیا۔ جس کی وجہ سے ہم تنزلی کا شکار ہوئے۔ (روزنامہ جسارت 30 دسمبر 2023)
پاکستان بیسویں صدی میں اسلام کا ایک بہت ہی بڑا معجزہ تھا۔ پاکستان کا قیام تاریخ کے ناممکنات میں سے تھا۔ اس لیے کہ ایک جانب قائداعظم اور مسلمانوں کو وقت کی سپر پاور برطانیہ سے مقابلہ درپیش تھا اور دوسری جانب قائداعظم اور مسلمانوں کو ہندو اکثریت سے پنجہ آزمائی کرنی تھی مگر اسلام کی طاقت غیر معمولی تھی۔ اسلام نے محمد علی جناح کو دیکھتے ہی دیکھتے قائداعظم بنا کر کھڑا کردیا۔ دو قومی نظریے کو اختیار کرنے سے پہلے قائداعظم افراد کے وکیل تھے مگر دو قومی نظریے یعنی اسلام نے انہیں ایک ملک، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بنا کر کھڑا کردیا۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ ایک بھیڑ تھی مگر اسلام کی طاقت نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بھیڑ کو ایک ہم آہنگ قوم میں ڈھال دیا۔ لیکن آج پاکستان کا حال یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد پاکستان کے حال اور مستقبل سے مایوس ہے۔ پاکستانیوں کو رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے کہ ہم ایک ملک کی حیثیت سے دنیا میں باقی بھی رہیں گے یا نہیں۔ اس بات کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے یہ کہہ کر دہرایا ہے کہ جھوٹی خبروں سے یہ تاثر دیا جارہا ہے جیسے پاکستانی ریاست اپنا وجود کھوتی جارہی ہے۔ آرمی چیف کا یہ خیال غلط نہیں۔ مگر بدقسمتی سے جنرل عاصم منیر کو معلوم نہیں کہ پاکستان کے فنا ہوجانے کا پروپیگنڈا کیوں ہوتا ہے؟
سقوطِ ڈھاکا اور مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی سے پہلے یہ بات ہر پاکستانی کے سیاسی عقیدے کا حصہ تھی کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان کو سخت مشکلات درپیش تھیں۔ پاکستان کا خزانہ خالی تھا۔ پاکستان کے حصے کے 70 کروڑ روپے بھارت نے روک لیے تھے۔ پاکستان کے پاس کوئی منظم فوج نہیں تھی، مسلم کش فسادات میں 10 لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید ہوچکے تھے۔ لاکھوں افراد نے پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی۔ ہندوستان کشمیر، حیدر آباد دکن اور جوناگڑھ پر قبضہ کرچکا تھا۔ لیکن ان حالات میں بھی کسی پاکستانی کو یہ خیال نہ آیا کہ پاکستان فنا ہوجائے گا۔ وہ تاریخ کے ہولناک ہنگاموں میں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا لیکن سقوط ڈھاکا نے پاکستان کے ہمیشہ قائم رہنے کے سیاسی عقیدے کے پرخچے اڑا دیے۔ سقوط ڈھاکا ایسا سانحہ تھا جس کی پیشگوئی صرف مولانا مودودی نے 1969ء میں یہ کہتے ہوئے کی تھی کہ اگر مشرقی پاکستان کے یہی حالات رہے تو پاکستان متحد نہیں رہ سکے گا۔ سقوط ڈھاکا اور مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی نے ہمیں بنیادوں سے ہلا دیا اور ہمیں ایک ایسے اجتماعی خوف میں مبتلا کردیا جو سقوط ڈھاکا کے 53 سال بعد بھی موجود ہے۔ یہ خوف وقتاً فوقتاً ہمارا پیچھا کرتا رہا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی۔ اس تحریک کا پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے میں کوئی خاص اثر نہ تھا مگر دیہی سندھ میں یہ تحریک پیپلز پارٹی اور بھٹو کی پھانسی کی وجہ سے بہت مقبول تھی۔ چنانچہ آمر وقت جنرل ضیا الحق نے دیہی سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک کے خلاف بڑے پیمانے پر طاقت استعمال کی۔ انہوں نے سندھ میں جلوس نکالنے اور مظاہرے کرنے والوں کے خلاف گن شپ ہیلی کاپٹر تک استعمال کیے۔ چنانچہ سندھ میں ’’مرکز گریز‘‘ رجحانات پیدا ہوئے اور ایسا لگنے لگا کہ سندھ پاکستان کے ساتھ نہیں چل سکے گا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پروفیسر غفور اور مولانا نورانی کی سطح کے سیاسی رہنما اپنے بیانات میں تواتر کے ساتھ یہ بات کہہ رہے تھے کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ ان رہنمائوں کو اندیشہ تھا کہ بھارت ایک بار پھر حالات کی خرابی کا فائدہ اٹھا کر سندھ میں مداخلت کرسکتا ہے۔ اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سندھ کے حالات پر نظریں لگائے بیٹھی تھیں اور انہوں نے دیہی سندھ میں ’’ظلم‘‘ کے خلاف ایک سخت بیان بھی جاری کیا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ بھارت نے سندھ میں فوجی مداخلت کی جرأت نہیں کی۔
پاکستان کی بقا اور سلامتی کے حوالے سے 1990ء کی دہائی بھی بڑی اہم تھی۔ اس دہائی میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کراچی پر راج کررہے تھے۔ الطاف حسین نے ایک سال میں 50 سے زیادہ ہڑتالیں کرائی تھیں۔ ان ہڑتالوں میں ہزاروں افراد ہلاک اور اربوں روپے کی گاڑیاں جلائی گئی تھیں اور معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔ ایک بار الطاف حسین نے تواتر کے ساتھ دو دن کی ہڑتال کرائی جس سے کراچی میں دودھ کی سپلائی کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔ یہاں تک ہمارے گھر میں بچوں کے لیے بھی دودھ نہیں تھا۔ چنانچہ ہماری اہلیہ نے کہا کہ کہیں سے دودھ خرید کر لائیں ہم گھر سے باہر نکلے تو علاقے کا عجیب منظر تھا۔ جگہ جگہ لوگ ٹولیاں بنائے کھڑے تھے اور ان ٹولیوں میں ایک ہی بات ہورہی تھی۔ اب کراچی پاکستان سے الگ ہوجائے گا۔ اس زمانے میں کراچی کے حوالے سے ’’ہانگ کانگ تھیوری‘‘ بڑی مقبول تھی۔ اس تھیوری کے مطابق ہانگ کانگ برطانیہ کے قبضے سے نکل کر چین کے ہاتھ میں جاچکا تھا اور تھیوری کے مطابق ایشیا میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو ہانگ کانگ کا متبادل درکار تھا اور تھیوری کے مطابق کراچی برطانیہ کا نیا ہانگ کانگ بننے والا تھا۔ کراچی کے حالات اتنے مخدوش تھے کہ ایک دن روزنامہ جنگ کراچی میں جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کا یہ بیان ایک کالم میں رپورٹ ہوا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فوسز اتر چکی ہیں۔ ہم نے قاضی صاحب سے بیان کے حوالے سے معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ قاضی صاحب کو ایک ذریعے سے اطلاع ملی کہ اقوام متحدہ کی فوج کراچی کی بندرگاہ پر اتر چکی ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ بوسنیا میں پاکستانی فوج کے جو دستے اقوام متحدہ کی امن فوج کے طور پر کام کررہے تھے وہ وطن واپس لوٹے تھے اور ان کے سازو سامان پر اقوام متحدہ کی امن فوج کے پرچم لہرا رہے تھے۔ اس سے کراچی پورٹ پر موجود قاضی صاحب کے ذریعے نے یہ سمجھا کہ کراچی کے حالات کا فائدہ اٹھا کر اقوام متحدہ کی فوج کراچی میں اتر گئی ہے۔ چونکہ قاضی صاحب کے ذہن میں بھی مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کا تجربہ موجود تھا اس لیے وہ بھی یہی سمجھے کہ کراچی میں واقعتاً اقوام متحدہ کی فوج اتر گئی ہے۔
بے نظیر بھٹو قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوئیں تو کراچی میں اس کی تاریخ کی بدترین بدامنی اور لوٹ مار ہوئی۔ بے نظیر کہہ چکی تھیں کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو اس کے ذمے دار جنرل پرویز مشرف ہوں گے۔ چنانچہ دیہی سندھ میں بڑے پیمانے پر ’’مرکز گریز‘‘ رجحانات پیدا ہوئے۔ ان رجحانات کو دیکھ کر خیال آتا تھا کہ سندھ پاکستان کے ساتھ رہے گا یا نہیں۔ آصف علی زرداری نے ان حالات کو بھانپتے ہوئے ’’پاکستان کھپے‘‘ یا ’’پاکستان چاہیے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے نے مرکز گریز رجحانات میں موجود گرم جذبات کو سرد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن زیر بحث موضوع کے اعتبار سے یہاں اہم بات یہ ہے کہ سقوط ڈھاکا اور مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی سے پیدا ہونے والا خوف ایک بار پھر عود کر آیا اور اس نے لاکھوں ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
جنرل عاصم منیر کا یہ خیال سو فی صد درست ہے کہ ہم نے قائداعظم کے تین زریں اصولوں یعنی ایمان، اتحاد اور تنظیم کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس سلسلے میں سب سے بدترین ریکارڈ جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں کا ہے۔ پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاسی کتوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کا نہ کوئی خدا ہے، نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی کتاب ہے، نہ کوئی مذہب ہے، نہ کوئی تہذیب ہے، نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ کوئی قوم ہے۔ ہمارے جرنیلوں اور سیاست دانوں کی زندگی کو ’’خدا مرکز‘‘ ہونا چاہیے مگر ان کی زندگی ’’امریکا مرکز‘‘ ہے۔
انہوں نے خدا کو بھلا دیا ہے اور امریکا کو اپنا خدا بنالیا ہے۔ ہمارے جرنیل اور سیاست دان خدا سے نہیں ڈرتے مگر امریکا سے ڈرتے ہیں۔ یہ ہمارے جرنیل اور ان کے پیدا کردہ سیاست دان ہیں جنہوں نے قائداعظم کے اصول اتحاد کو پارہ پارہ کیا۔ انہوں نے قوم کو بنگالی اور غیر بنگالی میں ڈھالا۔ انہوں نے ملک میں پنجابیت، سندھیت، مہاجریت، پشتونیت، بلوچیت اور ’’فوجیت‘‘ کی عصبتیں پیدا کیں اور انہیں توانا بنایا۔ بدقسمتی سے آج پھر ملک میں 1971ء کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ ملک کے سب سے مقبول سیاسی رہنما عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان چھینا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی بڑے پیمانے پر مسترد کیے جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما جمشید دستی کے گھر میں گھس کر ان کی اہلیہ کو برہنہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ آئندہ ’’الیکشن‘‘ ابھی سے ’’سلیکشن‘‘ بن چکے ہیں۔ اس صورت حال نے ملک کے سیاسی مستقبل کو دائو پر لگادیا ہے۔ حکمرانوں کی یہی روش ملک کے مستقبل سے قوم کو مایوس کرتی ہے۔