یہ اصراف کیوں؟

533

متوقع الیکشن کے حوالے سے توقع کی جارہی تھی کہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہوتے ہی سیاست دانوں اور عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جائے گی مگر اس بار سیاست دانوں میں وہ جوش ہے اور نہ ہی عوام میں وہ ولولہ دکھائی دے رہا ہے۔
جہاں کچھ لوگ محو گفتگو ہوتے ہیں موضوع حالیہ الیکشن ہی ہوتا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج سے کوئی بھی مطمئن نہیں ان کے خیال میں امید وار سرمایہ کاری کرتے ہیں جس کا مقصد منافع کا حصول ہوتا ہے اس پس ِ منظر میں الیکشن کو قومی سرمایہ کی بربادی قرار دے رہے ہیں اْن کی اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں کہ منتخب امیدوار انتخابات سے پہلے ہی نامزدکر دیے جاتے ہیں اْن کا کہنا ہے کہ نامزدگی سے بہتر ہے قومی حکومت تشکیل دے دی جائے۔ اکثریت کا کہنا ہے کہ مْلکی معیشت کی تباہی کی بڑی وجہ انتخابات ہی ہیں۔
شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو جہاں اْمیدوار ایک یا دو سے زیادہ نشستوں پر اْمیدوار ہوتے ہوں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب میں کھڑا ہونے کا مقصد کیا ہے؟ اس کا واضح مقصد تو یہ ہی لگتا ہے کہ اْنہیں اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہوتا۔ سو! تیر تْکے کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ کسی نہ کسی نشست پر کامیابی کا سہرا تو اْن کے سر پر سج ہی جائے گا اس تناظر میں یہ سوچنا غلط نہ ہوگا کہ سیاست دانوں کو ملکی معیشت کی کوئی پروا نہیں وہ صرف اسمبلی میں پہنچنا چاہتے ہیں۔
یوں تو عدلیہ آئے دن از خود نوٹس لیتی رہتی ہے مگر قومی خزانے کی بربادی پر کوئی نوٹس نہیں لیتی آخر کیوں؟ اس کیوں کا جواب کون دے گا؟ حالانکہ ملکی معیشت کا تقاضا ہے کہ سیاست دانوں کے اصراف پر کنٹرول کیاجائے کہ اس کے بغیر ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔
8 فروری 2024 کے انتخاب کے انعقادکے بارے میں اکثریت پْراْمید ہے مگر کچھ حلقوں کے حلق میں یہ بات اٹک رہی ہے اْن کی نظر میں الیکشن کی شفافیت غیر یقینی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ غربت اور افلاص کی بڑی وجہ الیکشن ہی ہیں کہ اسمبلیوں میں پہنچنے والے سیاست دان مخلص نہیں ہوتے اخلاص کی کمی کے باعث سیاست دانوں کو چار چار، پانچ پانچ نشستوں سے انتخاب میں حصہ لینا ہے اگر کوئی ایسا میکنزم تشکیل دیا جائے جو ایک نشست پر اْمیدوار ہونے پر یقینی بنائے تو قومی خزانے پر کم سے کم بوجھ پڑے گا کیونکہ جو اْمیدوار ایک سے زیادہ نشستوں پر جیتتا ہے وہ ایک ہی نشست اپنے پاس رکھتا ہے اور بقایا نشستوں پر دوبارہ الیکشن کرائے جاتے ہیں جو قومی خزانے کو برباد کرنے کے مترادف ہوتا ہے بعض لوگ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سیاست دان بھی اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور عوام بھی اْن کی کارکردگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔
یوں تو ہر معاملے میں ہندوستان کی مثال دی جاتی ہے مگر یہ کبھی نہیں سوچا گیا کہ نشستوں کو جمعہ بازار تو وہاں بھی نہیں لگتا کسی نے نشستوں کے اس جمعہ بازار پر اعتراض کیا تھا تو وزارتِ عظمیٰ کے ایک جسٹس نے کہا تھا کہ ایک سے زیادہ نشستوں پر تو بھارت میں بھی اْمیدوار کھڑے ہوتے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی مقبولیت کے بڑے چرچے ہو رہے ہیں اْنہیں پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر کہا جا رہا ہے مگر کوئی بھی یہ سوچنا پسند نہیں کرتا کہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو 30 سے 32 فی صد ووٹ ملے تھے اور ضمنی الیکشن میں 20 فی صد ووٹ ملے تھے گویا وہ اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں عمران خان 7 نشستوں اْمیدوار تھے وہ ساتوں نشستوں سے جیت گئے تھے مگر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کتنے فی صد ووٹ لیے تھے؟ قابل ِ غور بات تو یہ بھی ہے کہ اْن کے مقابلے میں کوئی نامور سیاست دان کھڑا نہیں ہوا تھا۔
چلیے یہ مان لیا! ہمارا آئین ایک سے زیادہ نشستوں پر کھڑے ہونے کی اجازت دیتا ہے مگر بنیادی حقوق کی پامالی کی اجازت دنیا کا کوئی بھی ملک نہیں دیتا سو، اس تناظر میں حکومت صرف ایک نشست کے اخراجات برداشت کرے اور ایک سے زیادہ نشستوں پر کھڑے ہونے والے امیدواروں کو نشستوں کے اخراجات ادا کرنے کا پابند کرے اور یہ کام عدلیہ کرسکتی ہے پارلیمنٹ نہیں۔