لاپتا خاندانوں کی دہائی

601

بلوچ مائوں، بہنوں کا قافلہ سخت سردی میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے تربت سے اسلام آباد آیا تھا۔ جہاں ان کو گرفتار کیا گیا، جیلوں میں ڈالا سردی میں واٹر کینن سے تواضع کی گئی، حالاں کہ لاپتا افراد کے لیے پرامن احتجاج ان کا حق ہے۔ آئین ان کو یہ حق دیتا ہے بلکہ ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے۔ افسوس حکومتی ادارے اس سلسلے میں جبر کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ بلوچ عشروں سے دہائی دے رہے ہیں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے ہیں ان کے فراق کی آگ میں جل رہے ہیں۔ لیکن حکومت اس حوالے سے کوئی سنجیدہ اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے۔ سمّی بلوچ جن کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ 14 سال سے لاپتا ہیں اور وہ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کرتی رہی ہیں۔ اس احتجاجی مارچ میں بھی موجود تھیں۔ کہتی ہیں ’’یہ پہلی بار نہیں کہ ہم نے اسلام آباد کا رُخ کیا ہو، نہ ہی یہ پہلی بار ہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ کا رویہ غلط ہو پہلے بھی ہمیں کئی بار مارا گیا، لاٹھی چارج ہوا، راج بی بی جن کا بیٹا ذاکر مجید 2009ء سے لاپتا ہے۔ راج بی بی اپنے بیٹے کے بارے میں بتاتی ہوئی کہتی ہیں کہ 2009ء میں جب اس کو اٹھایا گیا تو اس کی منگنی کی تیاری تھی۔ میں نے اس کی انگوٹھی بھی خریدلی تھی۔ اب چودہ سال ہوگئے اس کا پتا نہیں چلتا، مجھے نیند نہیں آتی، رات کو سونے کی دوائی لیتی ہوں لیکن پھر بھی سو نہیں پاتی۔ لاپتا کی بیٹی اور بیٹا ہونا کتنا تکلیف دہ ہے۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لاپتا کڑیل جوان بیٹے کا ماں باپ ہونا تو اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد نے اس مارچ کے لوگوں سے ملاقات کی، وہ تصویر تو سب ہی نے دیکھی ہوگی جس میں مشتاق صاحب ایک بوڑھے کمزور سفید ڈاڑھی والے بلوچ کو سینے سے لگائے دلاسا دے رہے ہیں۔ ایک باپ ایک باپ کے غم کو محسوس کررہا ہے۔ وہاں کوئی پیچھے سے بتاتا ہے کہ ان کا ایک اکلوتا بیٹا تھا اور وہ بھی لاپتا ہے۔ کیسی درد ناک بات ہے سن کر ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ کہتے ہیں ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے یہ کیسی ماں ہے جو اپنے بیٹوں کو کھانے کے در پے ہے۔ پچیس سالہ عائشہ مسعود جو آمنہ مسعود اور مسعود جنجوعہ کی صاحبزادی ہیں۔ کہتی ہیں کہ لاپتا باپ کی بیٹی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم میرے والد کس حال میں ہیں اور کہاں ہیں۔ عائشہ مسعود 9 سال کی تھیں جب ان کے والد مسعود جنجوعہ کو لاپتا کیا گیا یہ 2005ء کی بات ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب سے میری امی آدھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی ہیں۔ آدھی بیوہ کا لفظ دنیا نے پہلی بار بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں سے سنا تھا۔ افسوس کہ اب اسٹیبلشمنٹ کی مہربانی سے پاکستان خصوصاً بلوچستان میں عام ہوا ہے۔ کوئٹہ کی اُم البنین کہتی ہیں کہ لاپتا شخص کی بیٹی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ہر طرح کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ اپنے والد کے بارے میں کی جانے والی ہر بات پر خود کو کسی سے لڑائی کرنے سے روکنا پڑتا ہے۔ سندھ کی ماروی ایوب جو بیس سال کی ہیں پانچ سال قبل ان کے والد کو اٹھایا گیا۔ کہتی ہیں کہ میں انہیں روز یاد کرتی ہوں مجھے گھر کا خیال رکھنا ہوتا ہے، اپنی امی کو دیکھنا ہوتا ہے، سلائی کرکے پیسے جمع کرتی ہوں تا کہ احتجاج کے لیے جاسکوں۔ عدالت میں کیس کی سماعت حاضری دینی ہوتی ہے۔ پڑھائی پوری نہیں ہوئی۔ اگر آج میرے والد زندہ ہوتے تو میں ڈاکٹر بننے کی تیاری میں ہوتی۔
حالیہ ہونے والے مارچ میں سو کے قریب خاندانوں کے لواحقین موجود تھے جن میں آٹھ ماہ کی دودھ پیتی بچی سے لے کر اسی سال کی بوڑھی دادی بھی موجود تھیں۔ سخت سرد موسم میں یہ خواتین اور بچے اسلام آباد پہنچ کر پریس کلب کے سامنے دھرنا دینا اور احتجاج کرنا چاہتے تھے، لیکن اسلام آباد پولیس نے پریس کلب کے باہر خاردار تاریں لگا کر راستہ بند کردیا تھا۔ اب یہ کوئی دو سو کے قریب لوگ ہیں جو پریس کلب کے باہر میدان میں موجود ہیں۔ ان کے مطالبات کیا ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ پچھلے سال نومبر میں ہونے والے 22 سالہ بالاج اور اس کے دیگر چار ساتھیوں کو پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔ مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ بالاج اور ان کے ساتھی پہلے ہی پولیس حراست میں تھے۔ لہٰذا یہ قتل ہے جو پولیس کی زیر حراست کیا گیا۔ ان کا ابتدائی مطالبہ ہے کہ بالاج اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر واپس لی جائے اور ان کے خاندان سے معافی مانگی جائے۔ اس کے علاوہ ڈیتھ اسکواڈ کا خاتمہ، لاپتا افراد کی بازیابی اور مستقبل میں لاپتا کیے جانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ یہ سارے مطالبات حقیقی ہیں، حکومتی اعلیٰ عہدے داروں کو خود جا کر دھرنے میں بلوچ ماں بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھنے اور دلاسا دینے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں معاملات بہتر تو ہوئے ہیں۔ ورنہ آئے دن وہاں ناقابل شناخت مسخ شدہ لاشیں دریافت ہوتی تھیں اور ایسا جب بھی ہوتا لاپتا افراد کے خاندانوں کے لیے قیامت کی گھڑی ہوتی تھی۔ ان کے گھروں میں کہرام مچ جاتا۔ ٹارگٹ کلنگ کا بھی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ حکومت نے ان سب پر قابو تو پایا ہے۔ مزید مفاہمتی کوششوں کے لیے ضروری ہے کہ لاپتا نوجوانوں کو رہا کیا جائے، متعلقہ خاندانوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگی جائے، خفیہ ادارے اور حکومتی عہدے دار مظلوموں کی آہ سے بچیں۔ بحیثیت قوم بھی تمام سماجی تنظیموں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سول سوسائٹی کو آگے بڑھ کر کندھے سے کندھا ملا کر ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔