بلوچ احتجاج کی جڑ اور مسئلے کا حل

563

دسمبر کی سردیوں میں اسلام آباد کی سڑکوں پر ہونے والا ہنگامہ انجام کو پہنچا۔ بلوچ عورتیں اور بچے سرکار کے اس وحشیانہ عمل کے ردعمل میں احتجاج کررہے تھے جو ریاست ان کے مردوں کے ساتھ عشروں سے روا رکھے ہوئے ہے۔ ہر دوچار ماہ بعد اہل بلوچستان ہذیانی انداز میں کبھی سڑکوں پر، کبھی پریس کلبوں اور ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے اپنے جذبات کا الائو دہکاتے نظر آتے ہیں۔ اس مرتبہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ہاتھوں تربت سے تعلق رکھنے والے بلوچ نوجوان بالاچ مولا بخش کی ہلاکت اس احتجاج کا سبب بنی۔ جس نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا۔ متاثرہ خاندان نے، متعدد دیگر افراد کے ساتھ مل کر احتجاجی دھرنا شروع کیا، جو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ میں تبدیل ہوگیا۔

یہ مظاہرین اسلام آباد کی سڑکوں پر انقلاب کے سرخ اور سیاہ جھنڈے نہیں لہرا رہے تھے۔ نہ ہی اسلام آباد کو تبدیلی کے نعروں کا مدفن بنانے آئے تھے۔ یہ لوگ حکمرانوں کے حضور یہ عرضی پیش کرنے آئے تھے کہ حضور ہمارا غیر قانونی قتل بند کیا جائے۔ ہم بھی اس دھرتی کے باسی ہیں انسان ہیں۔ حادثات سے لڑتے، ٹھوکریں کھاتے وہ حکمرانوں کے دیس میں اس لیے آئے تھے کہ اپنے بیٹوں، بھا ئیوں اور باپوں کے بارے میں جان سکیں جو عرصے سے لا پتا ہیں۔ یہ ان کے بارے میں کسی معافی کے خواستگار نہیں ہیں بس یہ چاہتے ہیں کہ اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے، ان پر مقدمات چلائے جائیں۔ ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔ جذبات کی رو میں بہتی ہوئی ان حوصلہ مند خواتین، بچوں اور مردوں کو جلد ہی پولیس کے عملی سلوک اور ریاستی جبر کے ذریعے بتادیا گیا کہ ان کی اور ان کے مسائل کی سرکار کی نظر میں کیا وقعت ہے۔ عورتوں اور بچوں کو پہلے گرفتار کیا گیا پھر زبردستی بسوں میں بھر کر اسلام آباد سے با ہر چھوڑ دیا گیا۔ گرفتار مردوں کا کیا ہوا کچھ معلوم نہیں۔ جس کے بعد بلوچستان کے اکثریتی چھوٹے بڑے شہروں میں شٹر ڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے و دھرنے ہوئے۔

بلوچستان کا مسئلہ آخر ہے کیا؟ 75برس گزرنے کے بعد بھی اس ملک کی تمام اکائیاں کیوں ایک وحدت کا منظر پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ بلوچستان اور پختون خوا کے حوالے سے کچھ ماہ وسال کے بعد یہ سوال کیوں قومی منظر نامے پر چھا جاتے ہیں؟ ریاست پاکستان اور وفاقی حکومتی ڈھانچہ مختلف شناختوں پر مبنی معاشرتی اکائیوں کو وفاقی حکومتی نظام کے ذریعے متحد رکھتی ہے جس میں حقوق کی ضمانت، وسائل کی تقسیم، علاقائی خودمختاری اور علاقائی، لسانی یا قبائلی شناخت کے تحفظ کی ضمانت پر مختلف گروہوں کو قومی ریاست کی اتھارٹی تلے جمع کیا گیا ہے۔ اس ریاستی ڈھانچے اور حکومتی نظام میں ہمیشہ وسائل کی تقسیم، علاقائی خودمختاری، حقوق کی ضمانت اور شناخت کے اظہار پر مختلف گروہوں اور اکائیوں کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے جو بگڑ کرکھینچا تانی، احتجاج اور بعض صورتوں میں خانہ جنگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ناراض گروہ کے کچھ حصے ریاست کے خلاف سرگرم ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان میں یہی ہو رہا ہے۔ بد قسمتی سے آئینی اور قانونی ادارے ان معاملات میں موثر کردار اداکرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے بعد ریاستی جبر کے ذریعے بے چینی پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بالاچ مولا بخش کی ہلاکت اور بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی درحقیقت وفاقی نظام حکومت کی مختلف گروہوں کو متحد رکھنے کی ناکامی کے بعد ریاست کی جانب سے طاقت اور قوت کے زور پر قومی اتحاد کو قائم رکھنے کی کوشش ہے۔

مزید ستم یہ کہ جمہوری نظام حکومت میں اس اکثریت کو اہمیت دی جاتی ہے جس کا ووٹ، رائے اور نمائندگی وفاق میں حکومت سازی میں موثر کردار ادا کرسکے اور ان اقلیتی گروہوں کے حقوق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جن کی سپورٹ اور سیاسی نمائندگی مرکز میں حکومت بنانے یا قانون سازی میں غیر موثر ہویا کوئی اہم کردار ادا نہ کرسکتی ہوں۔ جمہوری نظام کا یہ نقص ریاست اور ان گروہوں کے درمیان خلیج کو بڑھا دیتی ہے جو اپنے آپ کو اقلیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بلوچستان میں علٰیحدگی پسند تحریک جمہوری نظام حکومت کا براہ راست نتیجہ ہے۔

تاریخی حوالوں سے اگر اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بر صغیر پاک و ہند میں انگریزوں نے بلوچستان، پختون خوا اور قبائلی علاقوں پر ایک مخصوص اور مختلف انداز سے حکومت کی ہے۔ انگریز حکومت ان علاقوں کو الگ نظر سے دیکھتی تھی۔ اس نے یہ جان لیا تھا کہ ان علاقوں کے لوگ کسی بھی صورت انگریز کی براہ راست حکمرانی کو قبول نہیں کریں گے۔ لہٰذا اس نے ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا نظام وضع کیا جس میں وہ قبائلی سرداروں کو اپنی حمایت اور مدد فراہم کرتا تھا اور قبائلی سردار ان علاقوں کو کنٹرول کرتے تھے۔ بظاہر یہ ایسے نیم خود مختار، نیم آزاد علاقے تھے جو تاج برطانیہ کی حکمرانی کو قبول نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان علاقوں میں اکثر شورش کا ماحول رہتا تھا۔ جب پاکستان بنا تو اسلام کے نام پر ان علاقوں کو پاکستان میں سمو لیا گیا لیکن بدقسمتی سے کبھی بھی اسلام کے ویژن کے حوالے سے ان علاقوں کو دیکھا گیا اور نہ اسلامی ویژن کے ذریعے حکومت کرنے کی کوشش کی گئی اور نہ اسلام کی بنیادوں پر ان علاقوں کو متحد رکھنے کی کوشش کی گئی۔ نئے حکمرانوں نے انگریز کے طرز حکومت کو برقرار رکھتے ہوئے ان علاقوں میں قبائلی سرداروں کو اہمیت دی۔ ان سرداروں کے ذریعے ہی ان علاقوں کو چلانے کی کوشش کی جب کہ سندھ اور پنجاب میں جمہوریت کو امرت دھارا اور تمام امراض کا علاج تصور کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی بلوچستان بیش تر شورش کا منظر پیش کرتا رہا۔ کبھی یہاں فوجی مداخلت رہی۔ امن وامان قائم ہوا۔ پھر حالات خراب ہوگئے اور پھر فوج کے ذریعے قابو پانا پڑا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بھی بلوچستان اور پختون خوا کے قبائلی علاقوں کو باغی تصور کیا اور اسی تصور کی بنیاد پر ان سے نمٹنے کی کوشش کی۔ ریاست پاکستان اور ان علاقوں کے شہریوں کے درمیان باہمی اعتماد اور یکجہتی کا فقدان ہے۔ ریاست پاکستان کا موقف ہے کہ بی ایل اے دہشت گرد تنظیم ہے۔ وہ اس سال تیس سے زائد فوجی جوانوں اور چھے پنجابی مزدوروں کو اعلانیہ شہید کرچکی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ لا پتا افراد واپس آنے چاہییں اور فوجی ایکشن اور کارروائیاں بند کی جائیں۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت ایکشن بند کرے تو یہ حملے کرتے ہیں اور ایکشن کرے تو یہ احتجاج کرتے ہیں۔

دونوں ہی طرف یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ جبر کے ذریعے حقیقی معاشرتی ہم آہنگی کو پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ممکن ہے کہ جبر کے ذریعے لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے دبا لیا جائے لیکن یہ صورتحال عارضی ہوگی، اور اس میں پائیداری اور طوالت کا فقدان رہے گا۔ جو چیز معاشرے کو متحد کرتی ہے وہ زندگی کے بارے میں نقطہ نظر پر معاشرے کا اتفاق اور اسی نقطہ نظر سے نکلنے والے نظام کا معاشرے پر نفاذ اور پورے معاشرے کی ایک واحد شناخت ہے جو رنگ، نسل، علاقے اور قبیلے سے بالاتر ہو کر پورے معاشرے کو ایک لڑی میں پرو دے۔ کسی بھی ریاست میں اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے اس معاشرے کی ایک اکائی ہونا ضروری ہے نہ کہ ریاست میں مختلف شناختوں پر مختلف معاشروں کے قیام کے اجازت دی جائے اور پھر ان معاشروں کو اکھٹارکھنے کی ناکام کوشش کی جائے جیسا کہ وفاقی نظام حکومت میں ہوتا ہے۔ یہ اکائی اسلام کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتی جس کے نام پر یہ ملک حاصل کیا گیا۔ اسلام کے طرز حکمرانی کو اپنا کر دیکھیے بلو چستان کی شورش جیسے مسائل از خود حل ہو جائیں گے۔