جماعت اسلامی بنگلا دیش زیر عتاب کیوں؟

508

آخری حصہ

اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہمارا اصل موضوع یہ ہے کہ جب سانحہ کے ذمے داران کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو گیا تھا کہ سیاسی مخالفین کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اور بلا امتیاز سب کو معاف کر دیا جائے گا۔ خود شیخ مجیب الرحمن نے عام معافی کا اعلان بھی کر دیا تھا تو ان کی بیٹی اور موجودہ وزیراعظم بنگلا دیش جماعت اسلامی کی دشمن کیوں بنی ہوئی ہے اور جماعت کے لیڈروں پر بنگلا دیش سے غداری کا الزام لگا کر انہیں پھانسی پر کیوں لٹکا چکی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک کیوں جاری ہے؟۔ اس کا جواب دینے سے پہلے ہم یہ وضاحت ضرورت سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کے درمیان سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی ضرور تھی لیکن ان کے لیڈروں کے درمیان کوئی ذاتی دشمنی اور عداوت نہ تھی بلکہ دوستانہ تعلقات قائم تھے۔ خرم مراد نے اپنی خودنوشت میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ 1970ء کے انتخابات کے بعد ان کی کمپنی کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن سے ملنے گئے اور انہیں بھی ساتھ چلنے کو کہا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ساتھ جانے سے انکار کر دیا کہ شیخ صاحب بھرے بیٹھے ہوں گے مزید تلخی نہ ہو جائے۔ خیر کمپنی کے سربراہ شیخ صاحب سے ملے تو وہ واقعی برہم تھے کہنے لگے آپ کی کمپنی تو انتخابات کے دوران جماعت اسلامی کا دفتر بنی ہوئی تھی۔ اس پر کمپنی کے سربراہ نے خرم صاحب کا پیغام شیخ مجیب کو پہنچایا کہ انتخابات کے دوران جو کچھ ہوا اس کے ذمے دار تنہا وہ ہیں کمپنی اس کی ذمے دار نہیں ہے اور اس کے لیے وہ کمپنی چھوڑنے کو تیار ہیں۔ اس پر شیخ

صاحب کہنے لگے ’’نہیں نہیں ہم خرم کی بڑی عزت کرتے ہیں، ہم کوئی کارروائی نہیں کریں گے‘‘۔ خرم مراد نے اس واقعہ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان کے سیاستدان مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کے مقابلے میں زیادہ وضع دار ہیں وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بھی وضع داری نبھاتے ہیں۔ پھر حسینہ واجد نے اپنے باپ کی طرح جماعت اسلامی سے وضع داری کیوں نہیں نبھائی؟ اس کا تجزیہ ہم آگے چل کر کریں گے۔

قارئین جانتے ہیں کہ بنگلا دیش بنتے ہی یہ ملک بحران کا شکار ہو گیا تھا۔ بنگلا دیش فوج نے شیخ مجیب الرحمن کی بھارت نواز پالیسیوں سے زچ ہو کر بغاوت کر دی۔ شیخ مجیب اور ان کا پورا خاندان اس بغاوت میں مارا گیا۔ حسینہ واجد اس لیے بچ گئیں کہ وہ اس وقت اپنے شوہر کے ہمراہ جرمنی میں تھیں۔ اس بغاوت کے نتیجے میں جنرل ضیاء الرحمن بنگلا دیش کے صدر بن گئے پھر ان کے خلاف بھی بغاوت ہوئی جنرل ضیاء الرحمن مارے گئے اور جنرل ارشاد نے اپنی آمریت مسلط کر دی۔ جنرل ضیاء الرحمن کی بیوہ بیگم خالدہ ضیا نے ایک سیاسی جماعت بنگلا دیش نیشنل پارٹی بنا کر فوجی آمریت کے خلاف سیاسی جدوجہد شروع کی تو جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ ہو گئیں۔ حسینہ واجد بھی وطن واپس آچکی تھیں اور عوامی لیگ ان کی سربراہی میں کام کر رہی تھیں وہ بھی اس جدوجہد میں شریک ہو گئیں۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہ اجلاس بالعموم جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غلام اعظم کے مکان پر ہوتے تھے اور حسینہ واجد ان اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتی تھیں۔ اس طرح جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کا بچشم سر مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ آخر اس مشترکہ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں فوجی آمریت کا خاتمہ ہوا اور عام انتخابات کے ذریعے بیگم خالدہ ضیاء کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے جماعت اسلامی کو بھی اقتدار میں شریک کر لیا کیونکہ اس کے ارکان بھی خاصی تعداد میں اسمبلی میں پہنچے تھے اور دونوں جماعتوں میں نظریاتی وابستگی بھی پائی جاتی تھی۔ جماعت اسلامی اقتدار میں شریک ہوئی تو اس نے ملک میں اسلامی نظام کی باتیں شروع کر دیں۔ بنگلا دیش کو اسلامی جمہوریہ بنانے کا ذکر ہونے لگا۔ جماعت اسلامی کے وزراء نے ملک میں اسلامی اقدار کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کر دیے۔ اس پر بھارتی لیڈروں اور ان کے پالیسی ساز اداروں نے خاص طور پر خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ بھارت نے بنگلا دیش اس لیے نہیں بنایا تھا کہ وہ دوسرا پاکستان بن جائے۔ یہ ملک سیکولر ہی رہے گا ہم یہاں اسلام کی باتیں نہیں چلنے دیں گے۔

چنانچہ 2008ء میں جب حسینہ واجد دوبارہ برسراقتدار آئیں تو ’’را‘‘ کے ذمے داران نے ان سے ملاقات کر کے انہیں بتایا کہ اگر وہ تاحیات برسراقتدار رہنا چاہتی ہیں تو انہیں جماعت اسلامی کا مکمل صفایا کرنا ہو گا۔ وہ پی این پی کو بھی دبا کر رکھیں کہ یہ بھی پرو پاکستان جماعت ہے۔ را کے ذمے داران نے حسینہ واجد کو بتایا کہ جماعت اسلامی کو ختم کرنے کا پورا پلان بھارت انہیں دے گا جس پر عمل کرنے کی وہ پابند ہوں گی اور اس کے بدلے میں انہیں تاحیات اقتدار کی ضمانت دی جائے گی اور ان کی زندگی کی حفاظت کی جائے گی بصورت دیگر وہ کسی بھی گولی کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ اس طرح حسینہ واجد پوری طرح بھارت کے شکنجے میں ہیں۔ بھارت کے ایما پر ہی نام نہاد انٹرنیشنل تحقیقاتی کمیشن بنایا جو جماعت اسلامی کے قائدین کو بنگلا دیش سے غداری کے الزام میں پھانسی پر لٹکا رہا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دیا جا چکا ہے اور بنگلا دیش کی عدالت عظمیٰ اس کی اپیل سننے کو تیار نہیں ہے۔ اب بنگلا دیش میں عام انتخابات سر پر ہیں اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ حسینہ واجد گزشتہ پندرہ سال سے برسراقتدار ہیں اور آئندہ انتخابات کا نتیجہ بھی صاف نظر آرہا ہے لیکن قدرت کا بھی ایک نظام ہے وہ ظلم کو ہمیشہ چھوٹ نہیں دیتی۔ کسی بھی وقت اس کی رسی کھنچ سکتی ہے۔ اپنے باپ کی طرح حسینہ واجد کا انجام بھی صاف نظر آرہا ہے۔

پاتے ہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
اگر جموری طریقے سے بنگلا دیش میں تبدیلی نہیں آتی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔