جماعت اسلامی بنگلا دیش زیر عتاب کیوں؟

569

۔16 دسمبر 1971ء کو جب خون میں ڈوبا ہوا سانحہ رونما ہو چکا تو فریقین نے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی۔ شیخ مجیب الرحمن جو اس وقت پاکستان کی قید میں تھے، انہیں رہا کر دیا گیا اور انہوں نے ڈھاکا پہنچ کر بطور وزیراعظم حکومت سنبھال لی۔ شیخ صاحب نے بنگلا دیش کی تحریک کے دوران مخالفت کرنے والے مقامی عناصر کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ 1970ء کے عام انتخابات کے بعد جب سیاسی بحران شروع ہوا تو محترم خرم مراد اس وقت جماعت اسلامی ڈھاکا کے امیر تھے۔ وہ عالمی شہرت کے حامل ایک سول انجینئر تھے۔ وہ اپنی ملازمت کے سلسلے میں کراچی سے ڈھاکا گئے تھے اور اپنی انجینئرنگ کمپنی کی طرف سے ایک پل کی تعمیر کے پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے، جماعت اسلامی سے ان کا تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ جماعت اسلامی ڈھاکا کے مقامی رفقا بھی انہیں اچھی طرح جانتے تھے اور ان کی تنظیمی صلاحیتوں کے معترف تھے چنانچہ انہوں نے جماعت اسلامی ڈھاکا کی قیادت ان کے سر منڈھ دی۔ خرم صاحب نے لاکھ دامن بچانے کی کوشش کی لیکن ان کی نہ سنی گئی خرم صاحب کا مزاج یہ تھا کہ وہ کوئی ذمے داری قبول کرتے تو اسے پورا کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیتے تھے چنانچہ انہوں نے امیر جماعت ڈھاکا کی حیثیت سے اپنی ذمے داری سنبھالنے کے لیے سب سے بنگلا سیکھی تا کہ مقامی لوگوں کے ساتھ زبان کی اجنبیت قائم نہ رہے۔ پھر لباس و معاشرت کے معاملے میں بنگال کلچر کو اپنانے کی کوشش کی۔ وہ اپنے آفس تو سوٹڈ بوٹڈ جاتے لیکن آفس سے واپس آنے کے بعد اپنی گھریلو زندگی میں کرتا اور دھوتی پہنتے اور اسی لباس میں مقامی کارکنوں سے بنگلا میں خطاب کرتے۔
وہ ڈھاکا کے علاقے دھان منڈی میں کرایے کے مکان میں رہتے تھے یہیں شیخ مجیب الرحمن کی رہائش بھی تھی چنانچہ شیخ صاحب سے بھی ان کی دوستی ہو گئی جب کہ عوامی لیگ کے مشتاق احمد اور دیگر لیڈروں سے بھی خرم صاحب نے دوستی استوار کر لی۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے مرکزی قائدین مولانا عبدالرحیم، پروفیسر غلام اعظم، مولانا ابوالکلام یوسف اور دیگر رہنما بھی عوامی لیگ کے ساتھ رابطے میں تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر انتخابات کے بعد اقتدار عوامی لیگ کو ملا تو ملک کی فلاح و بہبود کے لیے انہیں عوامی لیگ کے ساتھ مل کر ہی کام کرنا ہو گا۔ چنانچہ 1970ء کے عام انتخابات جب عوامی لیگ قطعی اکثریت حاصل کرلی تو جماعت اسلامی مشرقی پاکستان نے نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس فوری بلانے اور اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو چھوڑ کر مغربی پاکستان کے دیگر سیاستدانوں کا بھی تھا لیکن بھٹو قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل اقتدار میں شراکت کے لیے شیخ مجیب الرحمن سے سودے بازی کرنا چاہتے تھے ان کی پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی تھی اس لیے وہ بھی خود کو اقتدار کا حقدار سمجھ رہے تھے۔ چناں چہ جب صدر جنرل یحییٰ خان نے نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس 3 مارچ کو ڈھاکا میں بلانے کا اعلان کیا تو بھٹو نے اس کی مخالفت شروع کردی۔ انہوں نے مینار پاکستان لاہور کے جلسہ عام میں مغربی پاکستان کے ارکان اسمبلی کو دھمکی دی کہ اگر وہ اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکا گئے تو وہ ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے اس کے ساتھ ہی انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کا نعرہ بھی لگایا جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہم نہیں پورے پاکستان کا اقتدار نہیں لینے دیں گے اگر تم ہمیں اقتدار میں حصہ نہیں دیتے تو پھر تم مشرقی پاکستان کا اقتدار سنبھالو، ہم مغربی پاکستان کا اقتدار سنبھالیں گے۔ بعد میں یہی ہوا، ایک طویل خونریزی اور جنگی ہزیمت و رسوائی کے بعد مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا اور شیخ مجیب الرحمن اس کے وزیراعظم قرار پائے جبکہ مغربی پاکستان ادھورا پاکستان رہ گیا اور بھٹو نے اس کا اقتدار سنبھال لیا۔
باقی کہانی یہ ہے کہ بھٹو کے دبائو ڈالنے پر صدر جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی کردیا۔ وہ خود بھی اپنی صدارت کے لیے شیخ مجیب سے کوئی ڈیل کرنا چاہتے تھے۔ خرم مراد کا بیان ہے کہ شیخ صاحب اس پر آمادہ بھی تھے وہ فوجی قیادت کے اطمینان کے لیے اپنے مشہور زمانہ چھے نکات میں قطع و برید پر بھی راضی تھے۔ لیکن جب بھٹو مجیب مذاکرات ناکام ہوئے تو بھٹو نے انتقاماً یہ ڈیل بھی نہ ہونے دی اور جنرل یحییٰ خان کو فوجی آپریشن پر مجبور کر دیا۔ جنرل یحییٰ خان مارچ 1971ء میں ڈھاکا آئے اور آتے ہی انہوں نے بھٹو کو بھی ڈھاکا بلا لیا تھا۔ دونوں نے انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی شیخ مجیب سے مذاکرات کیے جب ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو جنرل یحییٰ خان نے بھٹو کے اشارے پر فوجی آپریشن کا حکم دیتے ہوئے اسلام آبا کی راہ لی۔ بھٹو بھی دوسرے طیارے سے کراچی چلے گئے انہوں نے کراچی پہنچے ہی یہ بیان دیا کہ ’’خدا کا شکر ہے پاکستان کو بچا لیا گیا‘‘ حالانکہ یہ پاکستان کو بچانا نہیں، تباہی کے گڑھے میں پھینکنا تھا جس پر خدا کا شکر ادا کیا جارہا تھا۔ فوجی آپریشن شروع ہوتے ہی شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ فوجی آپریشن 25 مارچ 1971ء کو شروع ہوا اور اس کے ردعمل میں جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی ایسی المناک تاریخ ہے جسے اب دہرانے کا حوصلہ نہیں۔ یہ فوجی آپریشن بالآخر 16 دسمبر 1971ء کو عبرتناک شکست پر منتج ہوا۔
(جاری ہے)