اسٹاک مارکیٹ کی تیزی، معاشی مشکل کم ہوگی؟

590

ساری دنیا میں حماس اسرائیل جنگ کی وجہ سے معیشت میں بہتری دور دور تک نظر نہیں آرہی۔ روس اور اوپیک پلس کے ممالک مسلسل اس بات پر عمل کر رہے ہیں کہ تیل کی پیداوار میں کمی کی جائے۔ اس طرح کی صورتحال میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے شکار عام آدمی کی زندگی پر اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کے مثبت اثرات پڑیں گے؟ اور عوام کی معاشی مشکل میں کیا فرق پڑے گا؟ کئی تجزیہ کار اس پر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ توڑ تیزی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ لیکن بظاہر ایسا دور تک نظر نہیں آ رہا۔ اسٹاک مارکیٹ میں ڈھائی سے پونے تین لاکھ تک چھوٹے بڑے سرمایہ کار کام کرتے ہیں۔ چھوٹے سرمایہ کار کی تعداد بہت کم مالیت کے ساتھ ایک لاکھ بتائی جاتی ہے لیکن اس سے انکار مشکل ہے بڑے سرمایہ کار جو کچھ بھی مارکیٹ میں کام کرتے ہیں اس میں چھوٹے سرمایہ کاروں کا حصہ زیادہ ہو تا ہے۔ سوال یہی ہے کہ کیا موجودہ تیزی پاکستان کی معیشت بہتری کی نشاندی کر سکتی ہے؟ جس کا جواب مثبت نہیں دیا جاسکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی اسٹاک مارکٹ میں مندی کا راج آیا ہے اس سے چھوٹے بڑے اور درمیانے سرمایہ کار تباہ ہو گئے۔

15 دسمبر کو جب مارکیٹ بند ہوئی تو ابتدائی ٹریڈنگ کے دوران زبردست تیزی نظر آئی یہ تیزی 16نومبر سے اسٹاک مارکیٹ میں جاری ہے جو عالمی معاشی صورتحال سے مطابق نہیں رکھتی، بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 679 پوائنٹس اضافے کے بعد 66100 پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کر گیا، ٹریڈنگ کے دوران ایک موقع پر انڈیکس 66346 پوائنٹس تک بھی پہنچا تھا۔ اسٹاک ماہرین کے مطابق متعدد مثبت پیش رفت کی وجہ سے مارکیٹ میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر غیر ملکی سرمایے کو راغب کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ یہ غیر ملکی ہی مارکیٹ سے فرار ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کہا جارہا ہے مارکیٹ میں استحکام نظر نہیں آرہا۔ اس کی وجہ یہ ہے مارکیٹ کے سرمائے میں جس تیزی سے اضافے کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آرہی ہے۔

شاید یہ لکھنا درست ہو گا کہ امریکا کے اتحادیوں کے سب ہی ملکوں میں معیشت کا گراف اُوپر کی جانب نظر آرہا ہے۔ ایک سال سے آئی ایم ایف کے ایجنڈے میں پاکستان دور دور تک نظر نہیں آرہا تھا لیکن اب ایسا نہیں۔ عمران حکومت کے دور میں پٹرول 150 روپے پر رک گیا تھا لیکن شہباز شریف نے 180 روپے لیٹر اور موجودہ عبوری حکومت نے پٹرول کو مہنگا کرنے کی تمام سرحدیں پار کر لی تھیں۔ حکومت پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے کامیاب مذکرات کے بعد 4برسوں جاری مندی میں بہت تیزی نظر آرہی ہے لیکن یہ سب کچھ اچانک ہونے کی وجہ سے شک سرمایہ بھوت ابھرتا نظر آرہا ہے۔ جس کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم ایسے میں یہ سوال بھی اْٹھایا جا رہا ہے کہ اس تیزی کا عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا اور اس کے ثمرات عام آدمی تک کب پہنچیں گے؟ اسٹاک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کے ڈیفالٹ کے خطرات میں کمی اور معاشی بحالی کے اثرات نظرآنے لگے ہیں، تاہم کچھ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی ضرورت ہے۔

مارکیٹ ذرائع کہتے ہیں انڈیکس میں تیزی کے باوجود مارکیٹ کے مجموعی سرمایہ جمود کا شکا ر ہے۔ تقریباً ایک ماہ سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی دیکھی جا رہی ہے اور مارکیٹ انڈیکس میں ایک ماہ میں 10 ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہو چکا ہے۔ 16نومبر سے مارکیٹ مسلسل تیزی کی جانب گامزن ہے کو ستمبر میں 45 ہزار اور اکتوبر کے شروع میں 46 ہزار پوائنٹس پر کھڑی تھی۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ اضافے کی متعدد ٹھوس وجوہات موجود ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ اسٹاک مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں مزید اضافہ نہ کرنے کے امکانات روشن ہونے اور کارپوریٹ سیکٹرز کے منافع میں مسلسل اضافے جیسے اشاروں کے باعث مارکیٹ کی کارکردگی اچھی نظر آرہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلسل دو ماہ سے شرح سود میں کمی نے مارکیٹ ہی نہیں پوری معیشت میں کچھ نہ کچھ بہتری کے آثار نمایاں کر دیے، مارکیٹ میں 15 نومبر کے بعد سے بینک، فرٹیلائزرز، تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرنے والی کمپنیوں اور دیگر شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈ کے حال ہی میں ہونے والے آکشن میں شرح منافع میں بڑی کمی آنے سے اس بات کے امید پیدا ہوئی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’’تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرنے والی کمپنیوں‘‘ میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود گیس کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کر کے کمپنیوں کے منافع کو بڑھایا گیا۔ مارکیٹ میں بہتری کا رحجان دیکھا گیا ہے کیوں کہ سرمایہ کار اس حوالے سے کافی عرصے سے غیر یقینی کا شکار تھے کہ آیا یہ اضافہ ہوگا یا نہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اضافے سے گیس کے شعبے میں چار سو ارب روپے کے گردشی قرضے کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اسٹاک تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کم ہونے کی بھی امید ہے اور اس میں اسٹیٹ بینک کے پاس موقع ہو گا کہ وہ شرح سود مزید کم کردے جس سے کسی حد تک ملک میں کاروبار کرنے میں سہولت پیدا ہو گی۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں جاری حماس اسرائیل جنگ کی وجہ سے تیل اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ لیکن فی الحال ایسا نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود ایک ماہ میں 10 ہزار پوائنٹس کے اضافے سے ایسا لگتا ہے کہ مارکیٹ اوور ہیٹ ہو رہی ہے اور آنے والے دنوں میں مارکیٹ میں ٹیکنیکل کریکشن جس کا مطلب ہوتا ہے کہ مارکیٹ کی حقیقی صورتحال کیا ہے جس میں اسٹاک مارکیٹ میں کچھ حد تک مندی بھی نظر آنے کا خدشہ ہے۔ یہ مندی اگر اگر طویل ہوئی تو اس سے مارکیٹ کے جھوٹے سرمایہ کا روں کو نقصان ہوگا۔ ایک جانب تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی اب بھی کافی گنجائش موجود ہے کیوں کہ مارکیٹ میں لگایا گیا سرمایہ پچھلے برسوں کے مقابلے میں کافی کم ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں بہتری اپنی جگہ مگر دوسری جانب ملک کے معاشی ڈھانچے میں موجود مسائل کو حل کرنے تک کسی ایسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔