مسئلہ کشمیر اور بھارتی عدالت عظمیٰ

550

بھارتی عدالت عظمیٰ نے چند روز پیش تر مقبوضہ کشمیر سے متعلق آئین کی دفعہ 370 کو حذف کرنے اور مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کے حق میں جو فیصلہ دیا ہے۔ اس پر پاکستان میں کڑی تنقید کی جارہی ہے خود حکومت پاکستان نے بھی اس پر مخالفانہ ردعمل ظاہر کیا ہے اور اس فیصلے کو غیر منصفانہ اور بلاجواز قرار دیا ہے۔ بعض حلقے اس عدالتی فیصلے کے خلاف او آئی سی کا اجلاس بھی بلانے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ہمارے بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ ساری مشق فضول اور لایعنی ہے اور اس سے کشمیرکاز کو فائدہ پہنچنے کے بجائے اور نقصان ہوسکتا ہے۔ ان دوستوں کی دلیل یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا بھارتی آئین یا بھارتی عدلیہ کے متنازع فیصلے سے کیا تعلق؟ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ وہ اپنے آئین کی جس طرح چاہے تعبیر کرے۔ ہم اس پر رائے زنی کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ جب کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے تو اسے عالمی ادارے یعنی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں دیکھنا ہی مناسب رہے گا۔ اقوام متحدہ کی یہ قراردادیں کشمیری عوام کے حق خود ارادی کو تسلیم کرتی ہیں اور بھارت پر زور دیتی ہیں کہ وہ کشمیری کے حق خودارادی کو عملی جامہ پہنائے اور عالمی ادارے کی زیر نگرانی ریاست جموں و کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کا بندوبست کرے۔ جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوتا، مسئلہ کشمیر برقرار رہے گا۔ بھارت بے شک کشمیر کو اپنے اندر ضم کرے لیکن عالمی سطح پر اس قسم کے اقدام کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
ہمارے ایک وکیل دوست کا کہنا ہے کہ بھارتی آئین کی دفعہ 379 کو حذف کرنے اور ریاست جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی قرار داد بھارتی پارلیمنٹ نے کثرت رائے سے یا اتفاق رائے سے منظور کی تھی۔ پاکستان اور عالمی برادری کی نظر میں بھارتی پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ کتنا ہی متنازع کیوں نہ ہو۔ بھارتی عدلیہ اپنی پارلیمنٹ کے فیصلے کو کیسے مسترد کرسکتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ بلاشبہ اس کا یہ موقف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی اور اپنے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے اس دعوے کی نفی ہے جو انہوں نے عالمی برادری کے سامنے کیا تھا اور جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی سے کیا جائے گا وہ بھارت کے ساتھ رہنے یا پاکستان کا انتخاب کرنے میں بالکل آزاد ہیں اور ہم ان کے فیصلے کا احترام کریں گے لیکن کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنے کا کبھی موقع نہیں دیا گیا اور خود جواہر لال نہرو بھی اپنے وعدے سے مکر گئے۔ لیکن اس کے باوجود بھارتی عدالت عظمیٰ نے ’’اٹوٹ انگ‘‘ کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے تو اسے بھارت کی دوسری ریاستوں کے برعکس خصوصی حیثیت کیسے دی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے نہرو کی موت کے فوراً بعد ہی ’’اٹوٹ انگ‘‘ کا موقف اپنالیا تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سیکڑوں بار مسئلہ کشمیر پر مذاکرات ہوئے لیکن بھارت کی تان ہمیشہ اس بات پر ٹوٹتی رہی کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اس پر کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ البتہ پاکستان نے کشمیر کے جس حصے پر قبضہ کررکھا ہے اور جسے وہ آزاد کشمیر کہتا ہے اس کی بازیابی کے لیے بات چیت ہوسکتی ہے۔ اس طرح ان مذاکرات میں کبھی کشمیر کا کاف بھی زیر بحث نہیں آسکا، اس کے باوجود بار بار مذاکرات ہوتے رہے اور پاکستان ان میں بیوقوف بنتا رہا۔ دونوں ملکوں میں طویل ترین مذاکرات جنرل ایوب خان کے دور میں 1962-63 میں ہوئے جب چین اور بھارت کے درمیان سرحدی جھڑپیں جاری تھیں اور چینی وزیراعظم چو این لائی نے جنرل ایوب خان کو پیغام دیا تھا کہ ہم نے اپنی سرحدوں پر بھارتی فوجوں کو الجھا رکھا ہے تم فوجی ایکشن لے کر کشمیر کو آزاد کرالو۔ اس پیغام کی ’’سُن گن‘‘ امریکا اور برطانیہ کو لگ گئی، انہوں نے جنرل ایوب خان کو مذاکرات کے جال میں پھنسا دیا۔ یہ مذاکرات دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سردار سورن سنگھ کے درمیان ہوئے اور کئی ماہ تک چلتے رہے۔ جب چین اور بھارت کی سرحدوں پر صورت حال معمول پر آگئی تو بھارت نے یہ کہہ کر مذاکرات کی بساط لپیٹ دی کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اس پر کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ ان مذاکرات کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا کرنا تھا۔
اب اگر بھارتی عدلیہ بھی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم کرتی ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ تعجب تو اس وقت ہوتا جب وہ اس کے برعکس موقف اختیار کرتی اور آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کردیتی۔ اگر بالفرض بھارتی عدلیہ ایسا کر بھی دیتی تو اس سے مسئلہ کشمیر کی صحت پر کیا اثر پڑتا۔ کیا اس فیصلے سے کشمیر آزاد ہوجاتا، کیا بھارت کشمیر پر اپنا قبضہ ختم کردیتا یا کشمیریوں کو بھارت کی عملداری میں ہونے کے باوجود اپنے غصب شدہ حقوق واپس مل جاتے؟ ایسا کچھ بھی ممکن نہ تھا۔ آخر ستر سال تک بھارتی آئین میں یہ شق شامل رہی اور کاغذوں میں ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل رہا لیکن قابض اور جارح بھارت نے کب اس شق کا احترام کیا۔ اس کی فوجوں نے کب کشمیریوں کی جانب بخشی کی۔ وہ انہیں گھروں میں گھس کر مارتی رہیں۔ ان کے گھروں، مدرسوں اور اسکولوں کو بارود سے اُڑاتی رہیں، ان کی زمینوں پر قبضے کرتی رہیں، آج بھی دس ہزار سے زیادہ کشمیری بچے اور جوان لاپتا ہیں یا تو انہیں مار دیا گیا یا پھر ان میں سے کچھ بھارت کی دور دراز جیلوں میں پُر اذیت زندگی گزار رہے ہیں۔ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے بعد بھی یہ سارا عمل حسب سابق جاری ہے۔
اس بحث کا ماحصل یہی ہے کہ دنیا نے بیشک سائنس و ٹیکنالوجی میں بے مثال ترقی کرلی ہے وہ تہذیب و تمدن کا دعویٰ بھی کرتی ہے لیکن دنیا میں اب بھی ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا قانون جاری ہے اور اس کے مقابلے میں کسی اخلاقی، کسی ضابطے اور کسی قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ غزہ کی موجودہ صورت حال نے بھی اس بات کو سچ کر دکھایا ہے اور پوری عالمی برادری اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے آگے بے بسی محسوس کررہی ہے۔ بھارت کا بھی یہی معاملہ ہے، وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ اگر پاکستان کے پاس طاقت ہے اور وہ اس طاقت کا برمحل استعمال کرنا جانتا ہے تو وہ مسئلہ کشمیر آج حل کرسکتا ہے، ورنہ نہیں۔ زبانی احتجاج سے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی تو کی جاسکتی ہے، ان زخموں پر مرہم نہیں رکھا جاسکتا۔