کشمیر پر بھارتی قبضہ اور تماشائی پاکستانی حکمران

980

بھارتی سپریم کورٹ نے اگست ۲۰۱۹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اس کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ عارضی اقدام تھا اس کے خاتمے کا فیصلہ قانونی تھا یا نہیں یہ بات اہم نہیں ہے بلکہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ان کی منطق تھی کہ بھارت کو تسلیم کرنے کے بعد جموں و کشمیر کوئی اندرونی خود مختاری نہیں رکھتا عدالت نے منسوخی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ۵ ستمبر ۲۰۲۴ کو ریاست میں انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔ اس معاملے میں ۲۴ متفرق درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ اس فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ چونکہ کشمیر میں کوئی اسمبلی ہی نہیں ہے تو آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی ختم کرنے کی سفارش کون کرے گا۔ پاکستان کی جانب سے اس معاملے میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ۷۰ برس سے موجود ہے۔ جموں و کشمیر کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ بھارت کو یکطرفہ اقدام کا حق نہیں تھا۔ پاکستان کی جانب سے موقف تو درست ہے لیکن اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ۷۰ برس سے یہ معاملہ کیا صرف بھارت کی چالاکی کی وجہ سے ہی لٹکا ہوا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اس میں پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی کو زیادہ دخل ہے۔ اب بھی پاکستان کے وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس کرکے سخت ردعمل دے دیا۔ ۵ اگست کے اقدام کے وقت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان وزیراعظم تھے اور عارف علوی اس وقت بھی صدر تھے۔ لیکن حکومت پاکستان نے اس وقت بھی انتہائی ڈھیلا ڈھالا احتجاج اور موقف اختیار کیا تھا کہ بھارت کی ہمت بڑھتی رہی۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بھارت کا ہر اقدام اس موقع پر اٹھایا گیا جب پاکستان میں کمزور حکومت تھی۔ ۵ اگست کے اقدام کے بعد بھارت نے بابری مسجد کا معاملہ عدالت کے ذریعے اپنی مرضی سے طے کرلیا اور یہ فیصلہ ہوگیا کہ بابری مسجد کے مقام پر مندر ہی بنے گا۔ اس وقت بھی پاکستان میں کمزور حکومت تھی۔ اسی طرح بھارتی عدالت عظمیٰ نے اس مقدمے کا فیصلہ ستمبر میں کردیا تھا لیکن اسے محفوظ کرکے رکھا تھا اور اب جبکہ نگراں حکومت انتخابات کرانے کے چکروں میں پڑی ہوئی ہے۔ بھارتی عدالت نے محفوظ فیصلہ سنادیا۔ پاکستان کی طرف سے حسب توقع ایک بار پھر ہلکا پھلکا ردعمل آیا ہے جو محض رسمی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے، اہم اداروں کی نجکاری کرنے اور اہم معاشی فیصلوں کا اختیار رکھنے والی نگراں حکومت کشمیر جیسے مسئلے پر کوئی پیش رفت نہیں کرسکتی۔ جس طرح کے انتخابات ہونے والے ہیں ان کے لیے کسی قسم کی حکومت کی بھی ضرورت نہیں تھی جو لوگ انجینئرنگ کرتے ہیں وہ کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور دیگر سرکاری افسروں کے ذریعے ایسے انتخابات کرالیں گے۔ اگر نگراں حکومت کی مدت ساٹھ روز بھی باقی ہے تو ان دو ماہ کے دوران وہ پوری دنیا میں طوفان اٹھا سکتے ہیں لیکن کیا پاکستان کی کوئی منتخب، نگراں، فوجی یا کسی قسم کی حکومت کشمیر کے مسئلے پر کوئی سنجیدہ کام کرسکی ہے جو اب ایسا کام ہوگا۔ کشمیر پر بھارتی قبضہ ہی سرے سے غلط تھا لیکن پاکستانی حکمران کبھی پراکسی وار کے چکر میں رہے اور کبھی دوسرے تیسرے آپشن کی باتیں کرتے ہیں۔اور خود مجاہدین کی پشت میں چھرا گھونپتے ہیں۔ جب مدعی سست ہوگا تو گواہ چست ہی ثابت ہوگا۔ کشمیر پر قبضہ مستحکم کرنے میں بھارتی چالاکی کا جتنا دخل ہے اس سے کہیں زیادہ پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی اور بزدلی کا دخل ہے۔ بھارت نے فوج کشی کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ پیدا کیا تھا اس کا حل بھی براہ راست پاکستان کی فوج کشی ہے لیکن پاکستان کی کوئی حکومت کشمیر میں براہ راست فوجی ایکشن کی ہمتنہیں کرسکی۔ جتنے الٹے سیدھے آپریشن کیے گئے ان سب کا نقصان پاکستان کو پہنچا اور ان کے نتیجے میں عالمی سطح پر پاکستان بھارت میں دہشت گردی کا مجرم قرار پایا۔ اور جب جب پاکستان اور بھارت براہ راست کشمیر میں آمنے سامنے ہوئے عالمی برادری کو بے چینی ہوگئی۔ لہٰذا نگراں حکومت یا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ جو حکومتوں سے بھی زیادہ طاقتور ہے وہ اگر ہمت کرے تو عالمی برداری بھی متوجہ ہوجائے گی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے امکانات بھی پیدا ہوجائیں گے لیکن اس کے لیے مضبوط موقف والی جرأتمند قیادت چاہیے جو موجودہ انتخابی نظام میں سامنے نہیں آسکتی۔ یوں تو اقوام متحدہ نے باضابطہ لائسنس جاری کردیا ہے کہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ مفلوج ہیں تو پھر کشمیری حریت پسندوں کو بھی حماس کے مجاہدین کی طرح ہمت کرنا چاہیے۔ کشمیر میں بھی مظالم میں سے کوئی ظلم تو باقی نہیں رہا جو حریت پسندوں کی کسی کارروائی کے بعد کیا جائے گا۔ کشمیری مجاہدین کی کھلے عام سرپرستی پاکستان کی ذمے داری ہے۔ اگر اسرائیل کی بمباری کی حمایت میں امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک کھڑے ہوسکتے ہیں تو کشمیر کے حق خودارادیت کی حمایت تو پاکستانی حکمرانوں پر فرض ہے۔