اقوام متحدہ کے خاتمے کا اعلان

1026

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دنیا بھر کی حریت پسند تحریکوں اور آزادی کے متوالوں کو پیغام دے دیا ہے کہ اب دنیا میں کوئی بین الاقوامی قانون وجود نہیں رکھتا، یا اگر وجود رکھتا ہے تو بس برائے نام ہے، بروئے کار نہیں۔ کیونکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ سلامتی کونسل غزہ کے معاملے میں مفلوج ہوچکی ہے اور سات اکتوبر سے جاری جنگ کی روک تھام کا راستہ نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔ یوں تو اقوام متحدہ پہلی مرتبہ مفلوج نہیں ہوئی ہے۔ افغانستان، عراق، بوسنیا، کشمیر، سانحہ مشرقی پاکستان، برما اور دیگر معاملات میں بھی اس کی کارکردگی یہی رہی ہے۔ صرف ان معاملات میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل مستعد نظر آتے ہیں جن میں امریکی ایجنڈا ہو۔ سوڈان میں عیسائی ریاست قائم کرنی ہو یا انڈونیشیا میں، مصر میں فوجی حکومت کو مستحکم کرنا ہو یا پاکستان میں، چین میں انسانی حقوق خصوصاً مسلمانوں پر مظالم پر کب لب کھولنے ہیں اس کا اشارہ بھی امریکا کی طرف سے ملتا ہے۔ یہ تو سیکرٹری جنرل نے اچھا کیاکہ اب سب کو اطلاع دے دی ہے کہ جو کرنا ہے خود کرو۔ اگر افغان عوام سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہوتے تو آج سکون میں نہ ہوتے یہ اور بات ہے کہ ان کے سکون سے ملالہ جیسوں کا سکون غارت ہے۔ سیکرٹری جنرل قطر کے دوحا فورم سے خطاب کررہے تھے انہوں نے سلامتی کونسل میں تقسیم کی مذمت کی ہے لیکن کیا ان کو نہیں معلوم کہ سلامتی کونسل کی ہئیت ترکیبی بھی ایسی ہے کہ اقوام متحدہ کے دنیا کے دو سو ممالک سلامتی کونسل میںکسی بھی ایک رکن کے ویٹو کی وجہ سے امن سے محروم ہوسکتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر ایک ہی مسئلے پر امریکا نے بار بار ویٹو پاور استعمال کرکے سلامتی کونسل کو کسی قسم کا موثر رول ادا کرنے سے روک دیا۔ معاملہ غزہ ہی کا نہیں ہے اس ویٹو پاور کا مطلب یہ ہے کہ اگر سلامتی کونسل کے تمام ممالک ایک مسئلے پر متفق ہوں تو ویٹو پاور رکھنے والا کوئی ایک ملک بھی سب کو غیر موثر بنا سکتا ہے۔ انتونیوگوتریس یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہار نہیں مانوں گا۔ لیکن ہار نہ ماننے کے لیے انہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قوانین بدلنے ہوں گے۔ چند بڑے ملکوں کو دنیا کے معاملات کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ ان سے یہ اختیار چھین لینا چاہیے۔ گوتریس یہ کام نہیں کرسکتے بلکہ اس کی کوشش بھی انہیں مہنگی پڑے گی۔ انہیں تو اسرائیلی درندگی برآواز اٹھانے پر ہی شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جنگ بندی کی قرار داد میں ناکامی نے سلامتی کونسل کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے۔ لیکن وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے ریاست بنانا اصل مسئلہ ہے اس کے حل میں ناکامی سے سلامتی کونسل اقوام متحدہ اور نام نہاد مہذب دنیا کے منہ پر کالا داغ لگ گیا ہے۔ انہوں نے سلامتی کونسل کو اپنے خط میں توجہ دلائی تھی کہ فلسطین میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ حالاں کہ انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اور اقوام متحدہ ۱۹۴۸ سے اب تک یہ مسئلہ حل نہیں کرسکی۔ سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے ادارے فلسطین اور غزہ کے بارے میں امدادی ادارے نے سنگین صورت حال بیان کی ہے۔ لیکن دوسرا بڑا المیہ تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ادارے صرف کمنٹری کررہے ہیں کہ غزہ میں کیا ہورہا ہے اور کیا ہوسکتا ہے۔ اس امر سے ایک دنیا واقف ہے کہ ۱۹۴۸ میں یوم نکبہ کے موقع پر لاکھوں فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا تھا اور انسانی المیہ اس ہی وقت وجود میں آگیا تھا۔ کوئی نیا المیہ وجود میں نہیں آرہا ہے۔ اس کا تسلسل ہے۔ اس کی سنگینی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بہرحال سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے حماس، کشمیری مجاہدین، برما کے ارکان، شام کے حریت پسندوں، چین کے مسلمانوں اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کو لائسنس دے دیا ہے کہ اب وہ اپنی جدوجہد خود کریں۔ اقوام متحدہ تو اس قابل بھی نہیں کہ امریکیوں کو ۲۰ برس جوتے مار کر اپنے ملک سے نکالنے والے افغانوں کی حکومت کو تسلیم کرے جس سے امارت اسلامیہ افغانستان کے نام پر امریکا نے مذاکرات کیے تھے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ افغانوں نے دو مرتبہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق اپنے اوپر چڑھائی کرنے والے درجنوں ممالک کا تنہا مقابلہ کیا اور اقوام متحدہ حملہ آوروں کی پشت پناہی کرتی رہی۔ یہاں تک کہ افغانوں نے روس کو بھی نکالا اور امریکا کو بھی۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب غزہ میں حماس اور دنیا کے دیگر علاقوں کے حریت پسند خود جدوجہد نہیں کرسکتے۔ سیکرٹری جنرل کے اعتراف کے بعد پاکستانی حکومت کے لیے بھی غزہ کے مظلوموں کی مدد کرنا آسان ہوگیا ہے اور وہ کھل کر سفارتی، سیاسی اور عملی مدد کرسکتی ہے۔ پاکستان اپنے طیارے بھیجے، اپنے امدادی اداروں کو غزہ تک پہنچائے، ڈاکٹر اور فیلڈ اسپتال وہاں پہنچائے، خوراک، لباس، خیمے، گرم کپڑے پہنچائے۔ بحالی کا کام کرے کیونکہ اقوام متحدہ نے ناکامی کا اعلان اور اعتراف کرلیا ہے۔