ایک اخباری خبر کے مطابق سندھ کے تعلیمی بورڈز میں میرٹ پر چیئرمین مقرر کرنے کے بجائے بیورو کریٹس کو چیئرمین مقرر کیا جارہا ہے اسے اسٹاپ گیپ ارینج منٹ کا نام دیا گیا ہے اگر یہ خبر درست ہے تو اسے تعلیم کا باضابابطہ جنازہ نکالنے کا عمل ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ خبر کے مطابق انٹر بورڈ کراچی کے چیئرمین کا چارج کمشنر کراچی کو سکھر بورڈ کے چیئرمین کا چارج کمشنر سکھر کو اور نوابشاہ بورڈ کے چیئرمین کا چارج کمشنر نوابشاہ کو دیا جارہا ہے جبکہ دیگر شہروں کے بورڈز کے چیئرمین کا چارج بھی متعلقہ کمشنرز کو دیا جائے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نگراں وزیراعلیٰ نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے۔ یہ خبر ظاہر کررہی ہے کہ ۱۸ویں ترمیم کے ذریعے مختلف شعبوں کو صوبوںکے حوالے کرنے سے جو نقصانات ہوئے ہیں ان میں صوبہ سندھ میں تعلیم کا سب سے زیادہ بیڑا غرق ہوا ہے۔ سندھ کے تعلیمی بورڈز کے بارے میں تو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان میں سرچ کمیٹی کے ذریعہ پانچ چیئرمین کے نام بھی منظور ہوگئے تھے جنہیں سابق وزیر تعلیم اسمٰعیل راہو اور سابق سیکریٹری جامعات و بورڈز مرید راہموں نیتقرر سے روک دیا تھا۔ گویا سابق وزیر میرٹ پر تقرر نہیں چاہتے تھے۔ یہی معاملہ جامعات، کالجز اور اسکولوں تک میں رہا ہے، اس امر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کمشنرز تعلیم جیسے حساس اور اہم مسئلے سے کیسے نمٹ سکتے ہیں جو ٹماٹر، پیاز، سبزی پھلوں اور دودھ دہی کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کرسکتے ان کو تعلیمی بورڈز کا چیئرمین بنانا تعلیم کا سرکاری سرپرستی میں قتل ہوگا اور پرائیویٹ اسکولوں اور بورڈز کو لوٹ مار کا مزید موقع ملے گا شاید نگراں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔کیونکہ کمشنر کے آگے پیچھے سیکورٹی باجے گاجے ، سائرن اور ہٹو بچو کا نعرہ لگانے والے بھی ہوتے ہیں۔