تعلیم کا جنازہ ہے۔ ذرا دھوم سے نکلے

415

ایک اخباری خبر کے مطابق سندھ کے تعلیمی بورڈز میں میرٹ پر چیئرمین مقرر کرنے کے بجائے بیورو کریٹس کو چیئرمین مقرر کیا جارہا ہے اسے اسٹاپ گیپ ارینج منٹ کا نام دیا گیا ہے اگر یہ خبر درست ہے تو اسے تعلیم کا باضابابطہ جنازہ نکالنے کا عمل ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ خبر کے مطابق انٹر بورڈ کراچی کے چیئرمین کا چارج کمشنر کراچی کو سکھر بورڈ کے چیئرمین کا چارج کمشنر سکھر کو اور نوابشاہ بورڈ کے چیئرمین کا چارج کمشنر نوابشاہ کو دیا جارہا ہے جبکہ دیگر شہروں کے بورڈز کے چیئرمین کا چارج بھی متعلقہ کمشنرز کو دیا جائے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نگراں وزیراعلیٰ نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے۔ یہ خبر ظاہر کررہی ہے کہ ۱۸ویں ترمیم کے ذریعے مختلف شعبوں کو صوبوںکے حوالے کرنے سے جو نقصانات ہوئے ہیں ان میں صوبہ سندھ میں تعلیم کا سب سے زیادہ بیڑا غرق ہوا ہے۔ سندھ کے تعلیمی بورڈز کے بارے میں تو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان میں سرچ کمیٹی کے ذریعہ پانچ چیئرمین کے نام بھی منظور ہوگئے تھے جنہیں سابق وزیر تعلیم اسمٰعیل راہو اور سابق سیکریٹری جامعات و بورڈز مرید راہموں نیتقرر سے روک دیا تھا۔ گویا سابق وزیر میرٹ پر تقرر نہیں چاہتے تھے۔ یہی معاملہ جامعات، کالجز اور اسکولوں تک میں رہا ہے، اس امر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کمشنرز تعلیم جیسے حساس اور اہم مسئلے سے کیسے نمٹ سکتے ہیں جو ٹماٹر، پیاز، سبزی پھلوں اور دودھ دہی کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کرسکتے ان کو تعلیمی بورڈز کا چیئرمین بنانا تعلیم کا سرکاری سرپرستی میں قتل ہوگا اور پرائیویٹ اسکولوں اور بورڈز کو لوٹ مار کا مزید موقع ملے گا شاید نگراں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔کیونکہ کمشنر کے آگے پیچھے سیکورٹی باجے گاجے ، سائرن اور ہٹو بچو کا نعرہ لگانے والے بھی ہوتے ہیں۔