’’علامہ اقبال: شخصیت اور فکر و فن‘‘

597

پچھلے دنوں منصورہ میں ہمدم دیرینہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اقبالیات کے موضوع پر اپنی کتابوں کا ایک سیٹ عنایت فرمایا اور ایک کتاب ’’علامہ اقبال: شخصیت اور فکر و فن‘‘ پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’’اسے ضرور پڑھیے گا‘‘ لاہور سے کہوٹا واپس آنے کے بعد چند روز تو مصروفیت رہی، دو دن پہلے اس کتاب پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے لیے اسے اٹھایا تو اس نے ہاتھ تھام لیا اور زبانِ حال سے بولی ’’سری سری نظر کافی نہیں، مجھے پوری توجہ اور دل جمعی سے پڑھو‘‘ لیجیے صاحب ہم سنبھل کر بیٹھ گئے۔ کتاب گود میں رکھ لی عینک کان پر ٹکائی اور ورق گردانی شروع کردی۔ صرف دو نشستوں میں سوا تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کو حلق کے نیچے اُتار لیا۔ اس کتاب کو علامہ اقبال کی زندگی پر ایک محفوظ ڈاکومینٹری کا نام دیا جاسکتا ہے جس کی ابتدا اقبال کی پیدائش سے ہوتی ہے اور اختتام ان کی وفات پر۔ درمیان کے سارے مناظر کشمکش حیات سے متعلق ہیں جس میں ان کا بچپن، جوانی، تعلیم کے مختلف مراحل، اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لندن اور جرمنی کا سفر اور وہاں کی مصروفیات، ہندوستان واپسی، درس و تدریس سے کنارہ کشی اختیار کرکے وکالت کو بطور پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ، روز مرہ زندگی کی الجھنیں، ہندوستان کے سیاسی حالات اور مسلمانوں کی حالت ِ زار، اس پس منظر میں علامہ کی شاعری اور اس میں چھپے ہوئے پیغام کی اہمیت۔ یہ سارے مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے ایک دستاویزی فلم کی صورت میں گزرتے چلے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر نبی آخرالزماںؐ کے ساتھ اقبال کی والہانہ محبت اور اس محبت کے اظہار کا سلیقہ قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ ہاشمی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے بلا تحقیق اور بلا سند نہیں لکھا۔ کتاب کے چوبیس ابواب ہیں، ہر باب پر ایک عنوان باندھا گیا ہے اور ہر باب کے اختتام پر حوالے اور حواشی کی ایک طویل فہرست ہے۔ حوالہ ان کتابوں اور دستاویز کا جہاں سے زیر نظر تالیف کا مواد اخذ اور حواشی اس لیے کہ روانی ٔ تحریر میں جو بات تشنہ رہ گئی ہے اس کی وضاحت کردی جائے۔ اس مشق سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہاشمی صاحب نے یہ کتاب لکھنے کے لیے کتنا مواد کھنگالا اور اس میں سے اپنے مطلب کی چیز برآمد کی ہے۔ تاہم ہاشمی صاحب کا کہنا ہے کہ یہ کتاب محققوں، دانشوروں اور نقادوں کے لیے نہیں، اقبال کے عام قاری کے لیے ہے، اس قاری کے لیے جو اقبال کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔ ہمارے نزدیک شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ محققین اور ناقدین کی نظریاتی بحثوں نے اقبال کی نجی زندگی کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے اور عام قاری ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ واقفیت نہیں رکھتا۔ زیر نظر کتاب بڑی حد تک اس گرانی کا ازالہ کردیتی ہے۔

اقبال بلاشبہ ہمارے عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ ’’ہمارے عہد‘‘ سے مراد محض بیسویں یا اکیسویں صدی نہیں بلکہ مسلم برصغیر کا وہ سارا زمانہ شامل ہے جو مسلمانوں نے اس خطے پر حکومت کی، عروج کا سنہری دور دیکھا پھر زوال اور پستی کا شکار ہوگئے اور سات سمندر پار سے آئی ہوئی ایک قوم نے ان سے اقتدار چھین کر انہیں غلام بنالیا۔ اقبال ایک ایسے ماحول میں اور ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے جس پر غلامی کا سایہ لہرا رہا تھا لیکن اس شعور کو پہنچتے پہنچتے ان کے اندر آزادی اور حریت ِ فکر کا شعلہ لو دینے لگا۔ اقبال نے شاعری کو اس کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کی شاعری عام شاعری نہ تھی، اس کا لہجہ ہی مختلف تھا، اس کی زبان کے تیور ہی کچھ اور تھے، اس کے مضامین ہی نرالے تھے۔ یہ درحقیقت ایک الہامی شاعری تھی جس کے ذریعے شاعر کو اپنی غلام قوم کے نام آزادی کا پیغام دے کر بھیجا گیا تھا۔

میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہوگا!

زیر نظر کتاب میں اقبال کی شاعری میں چھپے ہوئے اس پیغام کے جا بجا اشارے ملتے ہیں۔ اقبال کی شاعری ان کے اسی ’’نفس شعلہ بار‘‘ کی کرامت تھی۔ انہوں نے امت مسلمہ کے درماندہ کارواں کو منزل کا پتا دیا۔ اس کے اندر ایمان و یقین کی تو بھڑکائی اور اسے عزم و استقامت کے جذبے سے آشنا کیا۔ اقبال نے محض شاعری ہی نہیں کی۔ برصغیر کی مسلم سیاست میں بھی عملاً حصہ لیا۔ محمد علی جناح جو بعد میں قائداعظم کہلائے ایک مدت تک ہندو مسلم اتحاد کے بے کوشاں رہے، کانگریس میں بھی شمولیت اختیار کی لیکن بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو اور ان کے لیڈر ناقابل اعتبار نہیں ہیں وہ انگریزوں کے ہندوستان سے جانے کے بعد مسلمانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ہندوستان کی سازشی سیاست سے اس قدر مایوس ہوئے کہ ہندوستان چھوڑ کر لندن چلے گئے اور وہیں مستقل قیام کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس کے برعکس علامہ اقبال کبھی ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ کے مغالطے میں مبتلا نہ ہوئے وہ ابتدا ہی سے مسلمانوں کی الگ شناخت کا نظریہ رکھتے تھے اور یہی نظریہ ان کی شاعری اور ان کی فکر کی بنیاد بھی تھا۔ چناں چہ جب برصغیر میں آزادی کی سیاسی تحریک چل رہی تھی تو علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد میں مسلم اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کے ایک الگ وطن کی تجویز پیش کی جسے بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی قرار داد بنالیا۔ اور یہ علامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے محمد علی جناح کے اندر مسلمانوں کی قیادت کرنے کی صلاحیت بھانپ لی تھی۔ چناں چہ جب جناح صاحب نے لندن میں رہائش اختیار کرلی تو علامہ اقبال کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اب برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کون کرے گا اور انہیں کانگریس کے مکر و فریب سے کون بچائے گا جو رجال کار مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ انجام دے سکتے تھے وہ خود کانگریس کے آلہ کار بنے ہوئے تھے۔ اس صورتِ حال میں اقبال نے ضروری سمجھا کہ وہ لندن میں مقیم محمد علی جناح

سے رابطہ کریں اور انہیں ہندوستان واپسی آنے اور مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کریں۔ وہ موبائل اور انٹرنیٹ کا زمانہ تو تھا نہیں کہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے بھی بالمشافہ گفتگو ہوسکتی۔ اُس زمانے میں خط و کتابت ہی رابطے کا واحد ذریعہ تھی۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال نے روایتی تساہل کو ترک کرتے ہوئے فوراً خط کے ذریعے جناح صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں ہندوستان آنے اور مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ خطوط کے تبادلے کا یہ سلسلہ کچھ عرصہ جاری رہا۔ بالآخر علامہ کی کوشش بار آور ہوئی۔ محمد علی جناح ہندوستان آگئے اور انہوں نے اقبال کی خواہش کے مطابق مسلمانوں کی قیادت کا بار اُٹھا لیا۔ مسلمانان برصغیر نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور انہیں قائد اعظم کے خطاب سے نوازا۔ علامہ اقبال تو مسلمانوں کو محفوظ ہاتھوں میں دے کر 21 اپریل 1938ء کو ملک عدم روانہ ہوگئے لیکن مسلمانوں کو جس کے سپرد کر گئے تھے اس نے مسلمانوں کے لیے ان کے ایک الگ وطن کے خواب کو سچ کر دکھایا۔ زیر نظر کتاب اس سارے تذکرے سے خالی ہے حالاں کہ اس کے لیے ایک الگ باب کی ضرورت تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بقول ہاشمی صاحب وقت بہت کم تھا اور محدود مدت میں لکھی جانے والی کتاب میں کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ بہرکیف ہاشمی صاحب نے ’’اقبال، شخصیت اور فکر و فن‘‘ میں جو کچھ لکھا ہے قابل ِ ستائش ہے۔

ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں کہ جب آدمی اسّی کراس کرجائے تو اسے اپنے ہم عصر چھوٹے لگنے لگتے ہیں، ہم نے بھی اسی تاثر کے تحت لکھ دیا تھا کہ ہاشمی صاحب ہم سے کئی سال چھوٹے ہیں، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی ڈاڑھی میں کالے بال اب بھی ان کی جوانی کی چغلی کھا رہے ہیں جبکہ ہماری ڈاڑھی میں ایک بھی کالا بال ڈھونڈھے سے نہیں ملتا۔ لیکن ان کی کتابوں سے پتا چلا کہ ان کا سن پیدائش 1940ء ہے۔ جبکہ ہم 1941ء میں غوطہ کھا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہاشمی صاحب کو صحت و سلامتی کے ساتھ تادیر زندہ رکھے اور ان کے قلم سے اپنے دین کی خدمت لیتا رہے۔ آمین