ناکام پارٹیوں کو ووٹ نہیں چارج شیٹ دیں

440

تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے ن لیگ کے رہنما میاں نواز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ کرداروں نے ترقی کرتے ہوئے پاکستان کو تباہ کردیا۔ ہم تو ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ الیکشن میں قوم کو سبز باغ نہیں دکھائیں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ معیشت کے ساتھ کھیل کرنے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ سبز باغ نہ دکھانے کی بات کے فوراً بعد انہوں نے کہا کہ میں ملک سے دور رہا لیکن کارکن میرے دل کے قریب رہے۔ میاں صاحب نے تنقید تو باقی پارٹیوں پر بھی کی ہے لیکن ان کا نشانہ سابق پی ٹی آئی حکومت بھی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک اناڑی کے ہاتھ میں حکومت دینا سمجھ سے بالاتر ہے ان کے دور میں صرف باتیں کی گئیں اور عملاً کچھ نہیں ہوا۔ میاں صاحب کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۱۳ سے ۲۰۱۸ تک ملک ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتاری سے دوڑ رہا تھا لیکن اس دور کا کوئی ایک شعبہ نہیں بتاسکے جو اس وقت بہت اچھا چل رہا تھا۔ میاں صاحب کے دعوئوں کا آپریشن تو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بہت تفصیل سے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پر صرف دو خاندانوں نے سات مرتبہ حکومت کی ہے اور خوشحالی کی طرف جاتے ہوئے ملک کو تباہ اور بدحال کردیا ہے۔ یہ دونوں خاندان خود تو خوشحال ہوگئے ملک بدحال ہوگیا۔ انہوں نے عوام کو امید دلائی کہ اگر جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے تو کسی خاندان کی نہیں عوام کی حکومت بنے گی۔ انہوں نے پاکستانی سیاست کے اصل مسئلے با ربار کے آزمائے ہوئے لوگوں کو گھوم پھر کر بار بار لانے کے مسئلے کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لوگ ماضی میں ملک کی تباہی کے ذمہ دار رہے ہوں وہ ملک کو اب ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں گے۔ کیونکہ ایک جاتا ہے تو آنے والا خرابی میں کمی کی بجائے بس سابق کا رونا روتا ہے اور اصلاح نہیں کرتا۔ اس مسئلے کا حل بھی انہوں نے بتادیا کہ عوام ان خاندانوں کے محلوں کا طواف کرنے کے بجائے ان کا احتساب کریں۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ آج کل تین ناکام گروہ ملک کو ترقی دینے کے دعوے کرتے ہوئے عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ یہ سب عوام کو سبز باغ ہی دکھاتے ہیں ان میں سے کوئی یہ بتادے کہ اس کے دور میں ترقی ہورہی تھی تو عوام کی پانی، بجلی، گیس، تعلیم، صحت کی سہولتوں، سڑکوں، پارکوں اور انصاف سے محرومی کا کون ذمہ دار ہے۔ کس حکمراں کے دور میں عوام کو انصاف ملتا تھا۔ کون سا حکمراں یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میرے کھاتے میں ترقی اور عوامی خدمات کا ایک سنہری دور تھا۔ سراج الحق نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ پی ٹی آئی اور جرنیلوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ ان سب نے آئین کے ساتھ بے وفائی کی ہے۔ ان ہی کی پالیسیاں تو تھیں کہ پاکستان آئی ایم ایف اور عالمی بنک کا غلام بنا ہوا ہے۔ اگر ان ادوار میں ترقی ہورہی ہوتی تو پاکستان کو آئی ایم ایف کی غلامی کی ضرورت کیوں پڑی۔ کیا صرف چار سال کی پی ٹی آئی حکومت نے اکیلے یہ کارنامہ کیا ہے یا پی ڈی ایم کی جماعتوں نے یہ کام کیا ہے۔ یہ تو ایک تسلسل ہے جو ان دو خاندانوں اور ان کی پارٹیوں سے نکل کر تیسری پارٹی میں جانے والے پی ٹی آئی کے لوگوں نے کیا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دینے والے دوبارہ سہ بارہ اقتدار میں آکر ملک کو اس غلامی سے نکال لیں گے۔ یہ تینوں پارٹیاں ایسا نہیں کرسکتیں۔ ان کی کارکردگی جانچنی ہو تو ان کے اپنے بیانات اور دعوئوں کو یاد کرلیں۔ قوم کے سامنے سب آجائے گا۔ صرف نواز شریف اور پیپلز پارٹی کو دیکھ لیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول زرداری کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف پھر دو تہائی اکثریت مانگ رہے ہیں ان کو حکومت دلوانے والوں کو چوتھی بار بھی بھگتنا ہوگا۔ جو تین بار وزیراعظم بن کر فیل ہوا وہ چوتھی بار بن کر کیا تیر مارے گا۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ نواز شریف کے لوگ آج بھی وزارتوں میں ہیں۔ بلاول نے اس جانب بھی اشارہ کردیا کہ ڈوریاں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کوسمجھایا تھا کہ امپائر کی انگلی پر بھروسہ نہ کریں۔ پتا نہیں یہ کس نے سمجھایا تھا کیونکہ ۲۰۱۳ سے عمران خان امپائر کی انگلی اٹھنے کی بات کررہے ہیں۔ دس سال قبل تو بلاول سیاست ہی میں نہیں تھے۔ بہرحال سمجھنا تو تینوں پارٹیوں کو چاہیے کہ جو لاتے ہیں وہی نکالتے ہیں پھر مجھے کیوں نکالا کا سوال نہیں بنتا۔ بلاول نے تو سراج الحق کی تائید کی ہے کہ جو تین بار فیل ہوا وہ چوتھی بار کیا تیر مارلے گا اور وہ خود اس بیان میں اپنی پارٹی کا جائزہ بھی لے لیں کہ ان کی پارٹی چار مرتبہ سوائے عوام کے سینوں میں تیر مارنے کے اور کیا کارنامہ کرسکی ہے جو پانچویں بار نیا تیر لے کر آئے ہیں۔ دراصل یہ حقیقت ہے کہ یہ تین ناکام پارٹیوں کی جانب سے دعوے، سبز باغ اور عوام کے لیے دھوکے دینے کا موسم ہے انتخابات کے ووٹ کی دوڑ میں یہ سب ایک دوسرے کو ناکام اور خود کو کامیاب ترین قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ تینوں در حقیقت ناکام ہیں عوام ان کا احتساب کریں گے تو ہی ان کی جان چھوٹے گی۔