!امریکی سینٹ کا انسانی حقوق خلاف ورزی سے انکار

607

امریکا کے صدر بائیدن نے اپنے سینیٹر بہت دباؤ ڈالا لیکن اس کے باوجود امریکی سینیٹ سے اسرائیل اور یوکرین کے لیے اربوں ڈالر کی ہنگامی امداد کا بل منظور نہ ہو سکا۔ سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلکن پارٹی اور آزاد ارکان کی جانب سے مخالفت کے سبب اسرائیل اور یوکرین کے لیے امداد کا بل بدھ کو بلاک کر دیا گیا۔ لیکن اس پر عمل کتنا ہو گا یہ بھی ایک سوال اپنی جگہ موجود ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پنٹا گون، اور امریکا کے عسکری ادارے اسرائیل کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’بیت المقدس‘‘ کی ایک ایک اینٹ پر لکھا ہوا صاف نظر آرہا ہے کہ ’’حماس فاتح اور اسرائیل کو شکست سامنا ہو گا‘‘۔
صدر جو بائیڈن نے کانگریس پر زور دیا تھا کہ یوکرین کی امداد روکنا روس کی کامیابی کے مترادف ہو گا۔ اس طرح روس نہ صرف ناٹو کے رکن ممالک پر حملہ کر سکے گا بلکہ ایک ایسی صورتِ حال بھی بن سکتی ہے جہاں امریکا کی فوج کو بھی جنگ میں شامل ہونا پڑے گا۔ امریکی سینیٹ کے ارکان کی تعداد 100 ہے جن میں 49 ری پبلکن، 48 ڈیموکریٹس اور 3 آزاد ارکان شامل ہیں۔ اس بل کے تحت اسرائیل کو 14 ارب ڈالر کی امداد مل سکتی تھی جو اس وقت غزہ میں حماس کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ سینیٹ میں بائیڈن کے حلیفوں کا اسرائیل سے فلسطینی شہریوں کی ہلاکتیں محدود کرنے کے اقدامات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ 100 رکنی ایوان میں بل کے خلاف 51 ووٹ آئے جن میں آزاد سینیٹر برنی سینڈرز کا ووٹ بھی شامل ہے جوکہ عام طور پر حزبِ اقتدار ڈیموکریٹس کا ساتھ دیتے ہیں۔ برنی سینڈرز کے بقول وہ اور ان کے ساتھی اسرائیل کے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے باعث اس امدادی بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ امریکا کی سینیٹ میں کسی بھی بل کی منظوری کے لیے کم از کم 60 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ دوسری جانب امریکا کی جانب سے سلامتی کونسل کو ایک مرتبہ پھر اپنی جاگیر بناتے ہوئے متحدہ عرب امارات کی قرار داد کو یکسر مسترد دیا۔ امریکا نے ایک بار پھر اقوام متحدہ میں غزہ جنگ بندی سے متعلق قرارداد ویٹو کردی۔ قبل ازیں سیکورٹی کونسل کو لکھے اپنے خط میں انتونیوگوتریس نے غزہ میں انسانی بحران کے سنگین خطرے سے خبردار کرتے ہوئے غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ سیکورٹی کونسل میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کی قرارداد متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کی گئی تھی جسے امریکا نے ویٹو کردیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے اسرائیل کے خلاف امریکا کبھی سلامتی کونسل میں کسی بھی طرح کی قرار داد کو منظور نہیں ہونے دیتا۔
متحدہ عرب امارات کی قرارداد پر 15 میں سے 13 ارکان نے حمایت میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ غیر حاضر رہا۔ اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ وڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد کا ڈرافٹ غیر متوازن ہونے کے علاوہ حقیقت سے ہم آہنگ نہیں ہے، اس قرارداد سے معاملے کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکل سکتا۔ اس کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے اسرائیل کی بمباری اور حملہ درست ہے۔ اس سلسلے میں امریکا یہ کہنا چاہتا ہے کہ امریکا سلامتی کونسل سے اسرائیل کی بمباری کو سرٹیفکیٹ دلوانے کی ہر ممکن کوشش کر چکا ہے۔ لیکن روس اورچین نے امریکا کی ہر کوشش ناکام بنا دی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کے حق میں پانچ قراردادیں منظور کی گئیں۔ انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطین کشیدگی میں امریکا نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر کے انسانی بحران کا سنگین خطرہ پیدا کردیا ہے۔ انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں، غزہ کے لوگ بقا کی تلاش میں ایک سے دوسری جگہ منتقل ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے وسیع علاقے ویران اور 80 فی صد آبادی بے گھرہوچکی ہے، غزہ میں خوراک، ایندھن، پانی اور ادویات کی کمی، بیماریوں کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ خیال رہے کہ امریکا نے رواں برس اکتوبر میں بھی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے برازیل کی قرارداد کو بھی ویٹو کردیا تھا۔ برازیل کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور انسانی امداد کی ترسیل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ چند روز قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سیکورٹی کونسل کی توجہ مسئلہ فلسطین کی جانب مبذول کروانے کے لیے خط لکھا تھا۔
’’وقار، آزادی اور انصاف سب کے لیے‘‘ کے عنوان سے مملکت خداداد پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن منانے کا مقصد انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ 10دسمبر 1948 کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 30شقوں پر مشتمل اِس تاریخ ساز دستاویز یا آفاقی منشور کی منظوری دی جسے نسل ِ انسانی کی تہذیبی ترقی اور شعوری عظمت کی معراج قرار دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر دن دنیا کے تمام ممالک فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عزم کرنا چاہیے کیونکہ 76سال سے کشمیریوں اور اب فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جو دنیا کے لیے لمحہ فکر ہے، مسلم ممالک سمیت دیگر ممالک بھی جنگی بندی میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔ ہندوستان اور اسرائیل اپنے اپنے خطے کے امن کے لیے زبردست خطرہ بنے ہوئے ہیں اور اسرائیل تو جنگی جنون میں جنگ کے بنیادی اصولوں کو بھی للکار رہا ہے۔ دو ماہ سے رات دن نہتے بچے، خواتین اور بزرگوں پر وحشیانہ بمباری کی جا رہی ہے اسپتال، اسکول، مساجد اور اب پناہ گزینوں کے کیمپوں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس سے اب تک لاکھوں فلسطینی خواتین، بچے اور بزرگ شہید اور زخمی ہو چکے ہیں جبکہ بھارت میں بھی مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی انسانیت سوز سلوک کیا جا رہا ہے کبھی مساجدکو نذرآتش کیا جاتا ہے تو کبھی چرچ اور دیگر اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے مقبوضہ کشمیر بھارتی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے جہاں نہ خواتین کی عزتیں محفوظ ہیں نہ نوجوانوں کی زندگیاں۔ بھارتی فوجی معصوم نہتے کشمیریوںکو پلیٹ گن سے نابینا کرکے حق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو خاموش کروانے کی ناکام کوشش کر
رہے ہیں مگر ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا اور دنیا کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی داستاں سنائے گا۔ مذہبی امتیاز کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی زندگی کے تمام پہلوں میں اقلیتوں کی شمولیت کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی، تشدد اور انتہا پسند عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس کے لیے اقوام متحدہ، او آئی سی کے دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے ظالموں سے نجات دلوانے کے لیے فوری اقدامات کریں کیونکہ یہ انصاف کے علم برادروں کے لیے بھی لمحہ فکر ہے۔