شہر ِ ناپرساں کراچی، مسائل کی آماج گاہ

442

پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا شہرکراچی جو ملک کو چلانے کے لیے مالی وسائل اور آمدن کا ایک بڑا حصہ فراہم کرتا ہے، آج بھی متنوع مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ اس شہر کے گوناگوں مسائل اور دیرینہ مشکلات ہیں۔ شہر جل رہا ہے، موت رقص کررہی ہے، اور جو زندہ ہیں وہ سسک رہے ہیں۔ کراچی میں ایک طرف پانی، بجلی،گیس نہیں ہے، اور دوسری طرف لوگ روزانہ کی بنیاد پر مختلف طرح کی تکالیف سہہ رہے ہیں۔ ہر کچھ عرصے بعد آتش زدگی کا واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔ آگ لگنے کے تازہ ترین واقعے میں 5 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، لوگوں کی دکانیں جل گئی ہیں، سرمایہ بھی ختم ہوگیا ہے، متاثرین کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہیں۔ اسی طرح شہر کے لوگوں میں اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی شرح پر بھی تشویش ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی میں متعدد سنگین جرائم ہوئے ہیں جن میں ڈکیتی، قتل اور اغوا شامل ہیں۔ سیکڑوں موٹر سائیکلیں، کاریں دن دہاڑے چھین لی جاتی ہیں، روزانہ کراچی کے ہزاروں شہری اپنے موبائل فون سے محروم ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جوہر چورنگی کے قریب ڈاکوئوں نے گاڑی نہ روکنے پر کار پر پیچھے سے فائرنگ کردی، جس سے ایک نوجوان کمر میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگیا۔ اس کے بعد اْس کے بھائی نے گاڑی اسپتال کی جانب لے جانا چاہی مگر تیز رفتاری کے باعث وہ قابو میں نہ رہ سکی اور الٹ گئی۔ بعد میں گولی کا نشانہ بننے والا مرتضیٰ جان کی بازی ہار گیا۔ ایک اور واقعے میں کورنگی 5 نمبر اسٹاپ کے قریب دکان پر فائرنگ سے 28 سالہ شاہ رخ زخمی ہوا۔ یہ واقعہ ڈکیتی میں مزاحمت پر پیش آیا۔ ملیر کالا بورڈ کے قریب نامعلوم موٹر سائیکل سوار ملزمان ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کے موبائل فون چھین کر فرار ہوگئے۔ اسی طرح شہر کی ایک بڑی کاروباری فیملی کو بلیک میل کرنے اور ان سے 2 ارب روپے بھتہ طلب کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ انتہائی تشویش ناک اور الم ناک امر یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں چوری اور ڈکیتی کی کئی وارداتوں میں پولیس افسران اور اہلکار ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کون سا ایسا مسئلہ ہے جو اس شہر میں موجود نہیں ہے! لوگ نقل و حمل کے مربوط نیٹ ورک سے آج بھی محروم ہیں اور چنگ چی سے سفر کررہے ہیں۔ گرین، ریڈ اور الیکٹرک بس کے ڈرامے سے بھی شہری اچھی طرح واقف ہیں، لوگ جانتے ہیں کہ اربوں روپے لاگت کی نمائشی بسوں سے شہر کے لوگوں سے کتنا بڑا فراڈ کیا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق بی آر ٹی سے شہر میں ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اگر تمام 7 بی آر ٹی لائنز بھی فعال ہوجائیں تو وہ 170 ارب روپے کی لاگت کے ساتھ شہر کے صرف 9 فی صد مسافروں کی ضروریات ہی پوری کرسکیں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’درحقیقت بی آر ٹی کی وجہ سے بڑی کنسلٹنگ فرمز، سول اور دیگر ٹھیکے داروں، سپلائرز، خدمات فراہم کرنے والوں و دیگر کو فائدہ حاصل ہوتا ہے‘‘، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سارے نظام، ٹھیکوں اور سپلائی سے بھی مخصوص لوگ ہی جڑے ہوئے ہیں۔ کس کس بات کا رونا روئیںکنکریٹ کے اس جنگل میں عدم منصوبہ بندی کی وجہ سے بدترین ماحولیاتی مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ کراچی آلودہ ترین شہروں میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آچکا ہے، صنعتوں کا دھواں و فضلہ اس فضائی آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اتنے ہیں کہ انسان جائے تو کہاں جائے! اب پرندے اور جانور بھی اس شہر سے اپنی جگہیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ماضی میں کبھی ان فضائوں میں بلبل، کوئل اور توتا و مینا بھی نظر آتے تھے جو اب ناپید ہوچکے ہیں۔ اسی طرح صحتِ عامہ اور بلدیاتی مسائل ہیں، سرکاری اسپتال بدترین حالت میں ہیں۔ ابھی چند مہینے پہلے اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں کراچی کا شمار دنیا کے ناقابل ِ رہائش شہروں میں کیا گیا ہے۔ ڈان اخبار کے مطابق 173 شہروں میں سے کراچی کا نمبر 169واں ہے۔ اس میں کیا غلط ہے کہ ہم ابلتے ہوئے گٹر، شہر کی سڑکوں پر تعفن زدہ پانی کا روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں! اس وقت کراچی کی کثیر آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے، لوگوں کی بڑی تعداد گھنٹوں اور بعض علاقوں میں پوری پوری رات انتظار کرکے پانی حاصل کرتی ہے۔ بڑی تعداد میں شہری ٹینکر مافیا سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ پیپلز پارٹی کی شہری حکومت نہ خود کوئی کام کررہی ہے اور نہ جماعت اسلامی کے منتخب نمائندوں کو کام کرنے کا کھل کر موقع دے رہی ہے، گو کہ اب جماعت اپنے مربوط نیٹ ورک کی وجہ سے علاقے اور محلے کی سطح پر لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہے، اس کے ساتھ وہ اختیار لینے کی جنگ بھی لڑرہی ہے۔ سٹی کونسل کے حالیہ اجلاس میں پیپلزپارٹی کی جانب سے ہنگامہ آرائی کی گئی اور ماحول خراب کیا گیا۔ جماعت اسلامی کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ ایجنڈا طے ہوا اور اہم ترین ایجنڈا بجٹ کا تھا، اس سے قبل ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے پرانی تاریخوں میں بجٹ منظور کروا لیا گیا تھا جو پیپلزپارٹی کی جعل سازی تھی، جماعت اسلامی نے 19نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا جن میں سے 8 نکات کو پیپلز پارٹی نے حالیہ اجلاس میں شامل کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی، جس میں شہر میں امن و امان کا مسئلہ، گیس کے مسائل، سڑکوں کا مسئلہ، یونین کمیٹیوں کو وسائل کی عدم فراہمی، کے الیکٹرک سمیت کراچی کے شہریوں کے دیرینہ مسائل شامل تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کراچی کے ’’منتخب‘‘ میئر، ٹائون کونسل چیئرمین، یونین کمیٹی چیئرمین، کونسلرز اور دیگر منتخب نمائندوں کو قانونی اختیارات کے تحت کام کرنے دیا جائے، لیکن لگتا ہے پیپلز پارٹی اس شہر کو ٹھیک کرنا ہی نہیں چاہتی۔ اسی پس منظر میں امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بلدیاتی انتخابات کے ایک سال گزرنے اور ڈیڑھ ماہ قبل چیف جسٹس کے واضح احکامات کے باوجود یونین کمیٹیوں میں ٹرانزیشن پیریڈ ختم نہ کرنے اور مکمل اختیارات منتقل نہ کرنے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں اْن کا کہنا ہے کہ ’’بنیادی طور پر یہ پیپلزپارٹی کا چلایا ہوا چکر ہے جس کے باعث شہری پریشان ہیں، ہمیں توقع تھی کی نگراں حکومت کے آنے کے بعد پیپلزپارٹی کی پالیسیاں ختم ہوں گی، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نگراں حکومت پیپلزپارٹی کا توسیعی عمل ہے اور وہ اْسی کے مفادات کا تحفظ کررہی ہے‘‘۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’تمام یونین کمیٹیوں کو بااختیار بنایا جائے، یونین کمیٹیوں کا عملہ منتقل کیا جائے، ان کے سیکرٹریز اور دفاتر کا تعین کیا جائے اور کالعدم یوسی پر چلنے والا سابقہ نظام ختم کیا جائے، سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اور واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے عملے کو یونین کمیٹی کی سطح پر منتقل کیا جائے‘‘۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کراچی کی 246 یونین کمیٹیاں موجود ہیں جن میں 30سے 40 ایسے یوسی چیئرمین ہیں جن کے دفاتر کا ابھی تک تعین ہی نہیں ہوا، نہ ہی ان کے سیکرٹریز کا تعین ہوا ہے اور نہ ہی ان کے فنڈز جاری کیے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے اس سارے عمل کا مقصد شہر کے وسائل پر پیپلز پارٹی کی ایکسٹینشن نگراں حکومت کا قبضہ برقرار رکھنا ہے۔ کراچی کے لوگ خوف، عدم تحفظ اور مشکلات کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں، انہیں بھی ایک اچھی شہری زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، لوگوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کے وسائل شہرکے لوگوں پرخرچ کیے جائیں اور نگراں سندھ حکومت کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پیپلز پارٹی کا تسلسل نہیں ہے۔