اسرائیلی دہشت گردی اور بین الاقوامی ادارے

804

غزہ کے معصوم، مجبور اور محصور باشندوں کے خلاف ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کو دو ماہ مکمل ہو چکے، سات اکتوبر سے جاری یہ یک طرفہ اسرائیلی جارحیت اب تیسرے ماہ میں داخل ہو چکی۔ فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ غزہ میں اب تک 17 ہزار 177 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 7112 بچے بھی شامل ہیں۔ 7 اکتوبر سے اب تک 46 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے 60 فیصد کو علاج کے لیے فوری طور پر غزہ سے باہر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم 7600 افراد گمشدہ ہیں۔ شمالی غزہ کے تمام اسپتال بند ہو چکے ہیں۔ رہائشیوں میں بھوک کی شرع سنگین حد تک بڑھ چکی ہے۔ غزہ میں فلسطینی شہریوں کے ساتھ اسرائیلی فوج کے بد ترین سلوک کی ویڈیو اور تصاویر وائرل ہو گئیں۔ اسرائیلی حملوں میں 194 مساجد اور تین چرچ تباہ ہوئے ہیں۔ فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے انروا کا کہنا ہے کہ غزہ میں شدید بمباری اور فوجی آپریشن کے سبب صورتحال مایوس کن ہو چکی ہے، امداد کی فراہمی نہیں ہو پا رہی۔ اسرائیلی فوج نے غزہ، خان یونس سمیت بڑے شہروں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ وسطی غزہ کے علاقے مغازی میں ایک گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں 17 افراد جاں بحق ہو گئے۔ الجزیرہ کے غزہ میں موجود نمائندے مومن الشرفی کے 22 رشتہ دار جاں بحق ہو گئے۔ کمال عدوان ہسپتال غیر فعال کر دیا گیا وہاں سے زیادہ تر مریضوں اور عملے کو نکال لیا گیا۔ پورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 20 مریضوں کو ان کی حالت کی وجہ سے ہسپتال سے نکالا نہیں جا سکا اور وہ تاحال وہیں موجود ہیں۔

فلسطین کی یہ صورت حال عالمی امن کے ٹھیکیداروں اور انسانی حقوق کے نام نہاد علم برداروں کے منہ پر طمانچہ ہے اور ان اداروں کی اب تک کی کارکردگی ان کے مقاصد کے حصول میں ان کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ خاص طور پر اقوام متحدہ ، جس کے قیام کا بڑا مقصد ہی دنیا کو جنگوں خصوصاً طاقت ور ملکوں کو یک طرفہ جارحانہ کارروائیوں سے روکنا اور کمزور ممالک اور وہاں کے عوام کو تحفظ فراہم کرنا تھا، اپنے قیام کے مقاصد پورے کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے اور اس کا کردار بڑی طاقتوں کے آلۂ کار ادارہ سے زیادہ کچھ باقی نہیں رہ گیا۔ یہ بڑی طاقتیں جب چاہتی ہیں انہیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی ہیں جس کی مثالیں افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی یلغار اور عراق پر انہیں اتحادیوں کا بلا جواز حملہ اور وہاں انسانیت سوز مظالم اور تباہی کی صورت میں دنیا کے سامنے ہیں… مگر اب فلسطین میں اسرائیل کی یک طرفہ جارحیت اور ظالمانہ کارروائیوں کو روکنے میں اس ادارہ کا کردار عضو معطل سے زیادہ نہیں رہا، جو انتہائی افسوس ناک ، قابل مذمت اور باعث تشویش ہے۔ اس ادارہ کی موثر اور با اختیار سلامتی کونسل کی تشکیل اور ہیئت ترکیبی ہی عدل و انصاف کے تمام مسلمہ اصولوں کے منافی ہے جس میں شامل ارکان کو حاصل ویٹو کا اختیار اقوام متحدہ کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کہ اس کے ذریعے چند طاقت ور ملکوں میں سے ہر ایک کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ باقی ساری دنیا کی رائے کو اپنے ایک ویٹو کے ذریعے صفر اور مسترد کر دے جسے انصاف کے کسی بھی اصول و ضابطے کی رو سے سند جواز فراہم نہیں کی جا سکتی … عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم اور دوسری چھوٹی بڑی بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کا کردار بھی اقوام متحدہ سے مختلف نہیں، بدقسمتی سے یہ تمام ادارے اور تنظیمیں عدل و انصاف کی بالادستی، امن عالم کو یقینی بنانے اور دنیا کو ظلم سے پاک کرنے میں قطعی ناکام رہے ہیں، کم و بیش ان سب کا کردار بڑی طاقتوں کی باندی اور غلام سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان سب اداروں کی موجودگی میں ظلم، جبر، جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کو جاری رہنا ہے اور ’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘ کے اصول ہی کو بالادست ہونا ہے تو پھر اقوام متحدہ اور اس نوعیت کے دوسرے بین الاقوامی اداروں کے وجود کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے…؟؟؟