ایک کالم شہزاد اکبردی گریٹ کے نام

638

لندن کی ایک لیب میںصبح سے سر شام وہ یورین اور بلڈ ٹیسٹ کرنے میں مصروف رہتی۔ جولین کے ٹیسٹوں کے نتائج پرفیکٹ اور قابل اعتماد ہوتے تھے۔ لیکن اس کی تنخواہ بہت کم تھی۔ کئی مہینے سے وہ تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کررہی تھی۔ بات بات پر قلیل تنخواہ کا احسا س دلاتی، وہ غصے سے پیچ وتاب کھاتی رہتی لیکن باس ٹس سے مس نہ ہوتا۔ تنگ آکر ایک دن اس نے وارننگ دے دی کہ اگر اس ماہ کی پچیس تاریخ تک تنخواہ میں اضافہ نہ کیا گیا تو وہ اگلے دن کام چھوڑ دے گی۔ آج چھبیس نومبر تھی۔ وہ طنطناتی ہوئی باس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ باس نے تنخواہ میں اضافے سے انکار کرتے ہوئے پھر اسے بہلانے کی کوشش کی۔ جولین نے طیش میں استعفا میز پر پٹخا اور دروازے کی طرف مڑگئی۔ باس نے اسے آواز دی ’’جولین جاتے جاتے یہ چھوٹا سا کام کردو۔ اس بوتل میں موجود یورین کا ٹیسٹ کرتی جائو پلیز۔ ابھی تک تم آن جاب ہو‘‘ جولین کا خون کھول اٹھا۔ اس نے نفرت سے بوتل لی۔ اپنے کمرے میں آئی اور یورین کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔
27نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے دور میں وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ مجھ پر نامعلوم شخص کی جانب سے تیزاب پھینکا گیا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں شہزاد اکبر نے کہا کہ کل شام برطانیہ میں مجھ پر جہاں میں اپنے بچوں کے ساتھ مقیم ہوں حملہ کیا گیا، حملہ آور نے میرے اوپر تیزابی محلول پھینکا اور فرار ہو گیا۔
لندن دنیا کے عظیم اور پرشکوہ شہروں میں سے ایک ہے۔ شہزاد اکبر بھی ہمارے عظیم اور شاندار حکمرانوں میں سے ایک تھے۔ جب تک ان کی شکل نہ دیکھیں، نام سے وہ شہنشاہ اکبر کے ہمسر سجھائی دیتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ شہنشاہ اکبر کے گالوں پر شیو کے اوپر کالک کی ایسی قوس نہ تھی جسے دیکھ کر کہا جاسکے کہ منہ پر پیدائشی کالک ملی ہوئی ہے۔ شہزاد اکبر کے چہرے پر سر گرم کالک کی ایسی قوس محض علامتی نشان کا کام دیتی ہے۔ اگر اس کالک کا تعلق کردار کی پنہائیوں میں تلاش کیا جارہا ہے تو پھر یقینا آپ نواز شریف کی سازش کا شکار ہیں۔ جیسا کہ جیل کی تنہائیوں میں عمران خان پر انکشاف ہوا ہے کہ جلسے میں ان کا سائیفر لہرانا نواز شریف کی سازش تھی۔ انہیں جیل میں کتنے مہینے ہو گئے ہیں لیکن تدبر وحکمت انہیں ذرہ بھر قائل کرنے میں کا میاب نہیں ہوسکی ہیں حالانکہ وہ اس حال کو پہنچ گئے ہیں۔
جو کسی کے کام نہ آسکے
میں وہ ایک مشت غبار ہوں
سستی شہرت حاصل کرنے میں بہت کم خرچ آتا ہے۔ شہزاد اکبر ہمارے وہ عظیم سیاست دان ہیں جنہوں نے جو صرف ایک معاملے میں 190 ملین پائونڈ کی کرپشن میں ملوث ہوکرثابت کردیا کہ یہ سعادت زور بازو سے آن آف ہوتی ہے۔ جمعہ یکم دسمبر 2023 کو خبر آئی کہ قوی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے 190 ملین پاؤنڈز کرپشن کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو ملزم نامزد کردیا۔ عمران خان کے علاوہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی، زلفی بخاری اور شہزاد اکبر سمیت 8 ملزمان کو ریفرنس میں نامزد کیا گیا ہے۔ نیب کی جانب سے دائر 190 ملین پاونڈز کرپشن ریفرنس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شہزاد اکبر پر ملی بھگت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ریفرنس کے مطابق شہزاد اکبر نے 2 دسمبر 2019 کو گمراہ کن نوٹ تیار کیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ کو ریاست پاکستان کا اکاؤنٹ ظاہر کیا گیا اور چیئرمین پی ٹی آئی پورے منصوبے سے واقف تھے۔ نیب نے ریفرنس کے ساتھ چیئرمین پی ٹی آئی اور مرزا شہزاد اکبر کے وارنٹ گرفتاری بھی منسلک کیے ہیں۔
شہزاد اکبر ہماری سیاست میں کرپشن کے وہ سورج ہیں جو نواز شریف کی کرپشن کی تلاش میں طلوع ہوئے لیکن پھر خود کرپشن کے چندا ماموں بن گئے۔ شہزاد اکبر ہمارے حکمرانوں کے ہی نہیں ہم سب کے ظاہرو باطن کی دو نمبریوں کے نمائندے ہیں۔ اتنے بڑے جینیس کہ اربوں روپے کی کرپشن پکڑنے کے دعوے کرتے کرتے خود اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہوگئے اور پھر بڑی صفائی سے استعفا دے کر ملک سے باہر چلے گئے کوئی فوج، کوئی انٹیلی جنس، کوئی ایگزٹ کنٹرول لسٹ انہیں پکڑنا تو درکنار ٹریس بھی نہ کرسکی۔ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے عظیم فنکار روز روز کہاں پیدا ہوتے ہیں لیکن ہمارے باب میں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ہمارے یہاں روز ہی نہیں ہر گھڑی ہر گلی ہر محلے میں ایسے جینیس با افراط پیدا ہوتے ہیں جنہیں بس موقع ملنے کی دیر ہے پھر دیکھیں ان کی کار گزاریاں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ شہزاد اکبر کو گرفتار کرکے لانے مقدمے چلانے اور قیدوبند کی صعوبتوں سے گزارنے کے بجائے ایک عظیم قائد کی طرح ان کا استقبال کیا جائے۔ کرپشن کنگ کا مرصع تاج ان کے سر پر رکھا جائے اور قومی افراط کرپشن بیورو نامی ادارہ کا انہیں چیف بنایا جائے تاکہ ہر الیکشن میں کرپشن کی چاہت میں جونئے امیدوار حکومت کے ایوانوں میں اترتے ہیں وہ پریشان نہ ہوں اور سلیقے اور مہارت سے کرپشن کرسکیں۔ کرپشن کے بغیر حکومت جمہوریت کے لیے عیب اور نقص ہے۔ شہزاد اکبر وہ جینیس ہیں جو کمر تک نہیں پورے قد سے کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن مجال ہے کوئی انہیں گرفت میں لے سکے۔ کرپشن پکڑنے کی صحت مندانہ سرگرمیاں چلاتے ہوئے وہ کب حکومت اور ریاست کو کرپشن کا چونا لگا گئے کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکا۔ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ایک ہاتھ میں مکھن ہو اور دوسرے ہاتھ میں چونا۔ اکثر بیوقوف چونے کی جگہ مکھن لگا دیتے ہیں اور مکھن کی جگہ چونا جیسا کہ آج کل دانیال عزیز کررہے ہیں اور شوکاز بھگت رہے ہیں، شہزاد اکبر وہ ماہر فن ہیں جو بڑی نفاست سے چونے کی جگہ چونا اور مکھن کی جگہ بھی چونا لگا دیتے ہیں اور اس سے پہلے کہ شکار کو جلن ہو ملک سے باہر نکل لیتے ہیں۔
آج شہزاد اکبر پر ہی نہیں پوری تندہی کے ساتھ عمران خان، بشریٰ بی بی، فرح گوگی، عثمان بزدار اور نہ جانے کس کس پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ یہ سب لوگ بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں یا بڑھاپے کی حدود کے قریب قریب ہیں اور یہ بات غلط ثابت کررہے ہیں کہ پہلوان، طوائف اور سرکاری افسر کا بڑھاپا بہت خراب ہوتا ہے مولوی عبدالحق کے زمانے میں خراب ہوتا ہوگا جن کا یہ قول ہے آج کل تو بزور کرپشن سب بڑھاپے میں عیش کررہے ہیں۔ اس فہرست میں کرپٹ سیاستدانوں، جرنیلوں اور ججوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔
ایک مقدمے کے سلسلے میں شہزاد اکبر کے وکیل نے انہیں فون کیا۔ شہزاد اکبر نے پوچھا ’’فیصلہ کیا رہا؟‘‘ وکیل نے کہا ’’جناب فتح حق کی ہوئی‘‘ وکیل کی بات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ شہزاد اکبر غصے سے بولے ’’تمہارے جیسے وکیل سے مجھے یہی توقع تھی کہ ہم مقدمہ ہار جائیں گے چلو اب فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرو‘‘۔ اس ملک میں اتنے وسائل ہیں کہ صرف دو ہاتھوں سے سمیٹے نہیں جاسکتے جب تک کہ لمبے ہاتھ کرپشن کے دراز نہ کیے جائیں یہ ہاتھ کس طرح لمبے کیے جاتے ہیں شہزاد اکبر سے بہتر کوئی نہیں سمجھا سکتا۔