الیکشن کی تیاری

480

الیکشن کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری تھیں کسی کا خیال تھا کہ فلاں تاریخ کو ہوں گے، کسی کا کہنا تھا کہ ابھی مہینوں یہ ممکن نہیں، کسی کا کہنا تھا کہ ہونا تو ہے لیکن کب یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ لیجیے اب ساری قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں۔ عدالت عظمیٰ سے حتمی اعلان آگیا ہے کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے، اور یقینی طور پر ہوں گے، اس تاریخ میں کوئی ردوبدل نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ عدالت عظمیٰ نے اس بارے میں ذرائع ابلاغ کو ہر طرح کی قیاس آرائیاں اور شکوک و شبہات پھیلانے سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی الیکشن میں تاخیر کا سختی سے انکار کیا ہے بلکہ الیکشن کمیشن کی سختی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے انتخابات میں تاخیر کی خبروں کے خلاف اور ان کی اشاعت پر پیمرا سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کے انتخابات سے متعلق اعلانات پر یقین کرلینے میں نہ پہلے کوئی حرج تھا نہ اب ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ خود حکومت اور الیکشن کمیشن کی انتخابات سے متعلق غیر سنجیدگی ہی اس پر یقین کرنے میں حائل ہوتی رہی ہے۔ یہ ابھی کل ہی کی بات تو ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو جس طرح کامیاب کرایا گیا پھر ان کے ہی ارکان کے استعفوں کا معاملہ لٹکائے رکھا۔ پھر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران قومی اسمبلی کے ارکان کے استعفوں کو لٹکایا گیا۔ ضمنی انتخابات ٹالے گئے، آدھی قومی اسمبلی سے اہم قانون سازی کی گئی۔ یہ سارے معاملات کوئی نئے نہیں تھے۔ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات بہرحال الیکشن کمیشن ہی کی ذمے داری ہے۔ اس دفعہ یہ بات بھی اہم ہے کہ خود الیکن کمیشن نے پولنگ اسٹیشن پر فوج کو تعینات کرنے کی درخواست وزارت داخلہ کو بھیجی ہے۔ پاکستان میں عام انتخابات میں مخالفین کو ٹف ٹائم دینے کا خاص رواج ہے جس کے لیے آصف زرداری نے خاص عزم کا اظہار کیا ہے۔ بلاول زرداری جو پہلے ڈیڈی کو ’’یونو نتھنگ‘‘ کہہ کر دبئی گئے تھے وہ اب اجلاس میں شریک تھے۔ اجلاس کے دوران انہوں نے مخالفین کو ٹف ٹائم دینے کے لیے ڈیڈی کے بیان کو یوں تڑکا لگایا کہ کارکنوں کو انتخابات کے حوالے سے تیاریاں تیز کرنے کی ہدایت کی۔
نواز شریف نے بھی انتخابات کے حوالے سے بڑا اعلان کردیا ہے کہ ٹکٹ شفافیت اور میرٹ کی بنیاد پر دیے جائیں گے اور الیکشن کے سلسلے میں ہماری تیاری مکمل ہیں۔ حالانکہ شفافیت کے لیے شریف خاندان کی وفاداری ہے اولین شرط ہے۔ بہرحال یوں سیاسی جماعتیں الیکشن تیاری میں مصروف ہیں پاکستان میں یہ تیاری الیکشن کے اعلان سے بہت پہلے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ طریقہ کار خصوصی طور پر متعین ہے جس میں تبدیلی بھی نہیں ہوتی سب سے پہلے یہ کہ نگراں حکومت میں جانبدار لوگوں کو جگہ دی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں مرضی کے حج مقرر کیے جاتے ہیں۔ انتخابی عملے میں خاص کسی ایک جماعت کے حامیوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ میڈیا کو پابند کرنے کے ساتھ سرکاری مشینری اور فنڈز کو استعمال کیا جاتا ہے، انتخابات سے قبل کی یہ دھاندلی پورے اعتماد سے کی اور کرائی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے بھی انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے داخلی الیکشن، ملکی وسائل کو انتخابی عمل میں استعمال کی ممانعت، انتخابی عمل مکمل ہونے تک سرکاری افسران کے تبادلوں پر پابندی، امیدوار کے انتخابی اخراجات میں ایک حد کا تعین جیسے احکامات جاری کیے لیکن ان احکامات پر عمل درآمد نہ ہوسکا نہ ہی ان کی خلاف ورزیوں پر شکایات پر کان دھرے گئے نہ ہی ملزمان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیا۔ جعلی ووٹ بھگتانے کو باقاعدہ ویڈیو ثبوت موجود ہوتے ہیں کہ ساری بک ووٹ کے ٹھپے لگا کر بیلٹ بکس میں ڈال دی جاتی ہے لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوتی۔ حالاں کہ بائیومیٹرک سسٹم موجود ہے جو جعلی ووٹوں کو شناخت کرسکتا ہے۔ شفاف انتخاب آسان ہے لیکن شاید وہ الیکشن کمیشن نگراں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سب ہی کے لیے کوئی خاص اہم نہیں ہے۔ یعنی انہیں سوٹ نہیں کرتا۔