کراچی، آتشزدگی کا خوفناک سانحہ

397

کراچی کی ایک اور رہائشی و تجارتی عمارت میں آتشزدگی خوفناک شکل اختیار کرگئی۔ بدھ کی رات کو شارع پاکستان پر واقع عائشہ منزل کے نزدیک فرنیچر کی ایک دکان میں لگنے والی آگ نے 5 منزلہ رہائشی فلیٹ کو بھی اپنی زد میں لے لیا، گزشتہ 15 روز کے دوران میں شہر میں آگ لگنے کا دوسرا واقعہ ہے۔ عرشی شاپنگ مال میں آتشزدگی کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 2 بری طرح جھلس گئے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے، لیکن بلدیاتی اور شہری نظام کے حوالے سے ملک کے سب سے بڑے شہر کو ناقابل رہائش بنادیا گیا ہے۔ شہر کے بلدیاتی ادارے اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے کثیر المنزلہ عمارتوں میں آتشزدگی کے واقعات کثرت سے پیش آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے سنگین سانحہ ایک گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگنے کا تھا۔ جس میں حفاظتی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے 250 سے زائد مزدور جاں بحق ہوگئے تھے۔ اب بھی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق کراچی کی 90 فی صد عمارتوں میں آگ بجھانے کا نظام موجود نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔ تعمیراتی قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے اور کرانے والے اداروں نے بھی نظر انداز کیا ہوا ہے۔ شہر میں دھڑا دھڑ کثیر المنزلہ عمارتیں بن رہی ہیں۔ کوئی شہری منصوبہ موجود نہیں ہے، تعمیرات اور شہری منصوبہ بندی کا شعبہ مافیائوں کے رحم و کرم پر ہے۔ شہری اور بلدیاتی اداروں کی ناکامی نے شہریوں کی جان و مال کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور اس کی شہادت کثرت سے ہونے والے حادثات ہیں۔ اس سلسلے میں شہریوں کی تربیت کا بھی کوئی نظام نہیں پایا جاتا۔ عائشہ منزل کے پاس ہونے والے حادثے ہی کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے فوم کے گدے بنانے والی ایک دکان میں آگ لگی اور اس نے اپنی قریبی عمارت کو گھیرے میں لے لیا۔ اس لیے کہ فوم کے گدے میں آگ تیزی سے لگتی ہے اور اس کا بجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس حادثے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آگ سے بچائو اور حفاظت کے لیے ضروری وسائل وہ بھی محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس نہیں ہیں۔ ان اداروں کی ناقص کارکردگی نے شہریوں کی جان و مال کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے، اس سے بچائو کے لیے اقدامات ایک وسیع آپریشن کا تقاضا کرتے ہیں۔