فلسطینی عوام کی نسل کشی اور عالمی ضمیر!

436

سرزمین انبیاء فلسطین پر حق و باطل کی جنگ کے نئے مرحلے کو دوماہ کا عرصہ مکمل ہوگیا ہے۔ سات اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت میں اب تک 17 ہزار سے زائد لوگ شہید ہوچکے ہیں جس میں 6500 معصوم بچے بھی شامل ہیں جبکہ ہزاروں زخمی اس کے علاوہ ہیں۔ دنیا بھر میں انسانیت کا درد رکھنے والے لوگوں کے بھرپور احتجاج کے باوجود اسرائیلی درندگی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ گو کہ قطر و سعودی عرب کی کوششوں سے ایک ہفتہ کی عارضی جنگ بندی کی گئی تھی جس کے نتیجے میں ڈیڑھ سو سے زاید فلسطینیوں کو جیلوں سے آزاد جبکہ حماس نے سات اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے 110 یہودیوں کو رہا کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو دنیا بھر کے پریشر کے باوجود پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ عارضی جنگ بندی کے بعد غزہ پر دوبارہ حملے کیے جائیں گے اور حماس کے خاتمے تک مستقل جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جنگ بندی کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کردی ہے جس کے نتیجے میں ایک بار پھر خون کی ہولی جاری ہے۔ غزہ پر ہونے والے ظلم و صہیونی درندگی پر دورہ کرنے والی انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی صدر مرجانا سپولجارک بھی اپنے جذبات کو قابو نہ رکھ سکی ان کا کہنا تھاکہ ’’غزہ کی صورتحال ناقابل بیان ہے اور یہ عالمی برادری کی اخلاقی ناکامی ہے۔ غزہ میں شدید زخمی بچے ہیں، جن کے والدین مر چکے ہیں، زخمی بچوں کی مرہم پٹی اور دلاسہ دینے والا کوئی نہیں، غزہ کے زخموں کا مداوا چند ٹرک بھیجنے سے نہیں ہو گا۔ غزہ میں خواتین، بوڑھے اور بچے بار بار اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں، غزہ میں لوگوں کو چند دنوں میں کئی بار اپنا ٹھکانہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ مرجانا سپولجارک ایگر نے کہا کہ لوگوں کی اکثریت اپنے اعضاء کھو چکی اور علاج کی سہولت بھی نہیں۔ ہمیں شہریوں، قیدیوں، یرغمالیوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی تکالیف اور مصائب صرف ہم دور نہیں کر سکتے، غزہ کے مسئلے کا انسانی اور سیاسی حل بھی تلاش کرنا ہو گا‘‘۔ یاد رہے کہ ایک اسرائیلی وزیر غزہ پر ایٹم بم گرانے اور پوری دنیا میں موجود فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو قتل کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ جاپان کے شہر ہیرو شیما پر گرائے گئے ایٹم بم 20 ہزار ٹن بارود کے برابر جبکہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی پر گزشتہ 60 دنوں سے جنگ کے دوران 40 ٹن بارود گراچکی ہے۔ مگر عالمی ضمیر سمیت دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس لیے کہ طاقتور کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ جس کا ربّ اس کا سب کچھ محاورے کے مطابق اس جنگ کو 60 سے زیادہ دن گزرچکے ہیں مگر حماس اور غزہ کے عوام صبر واستقامت کے ساتھ صہیونی درندگی کا ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے آپ کو سپر پاور کہلانے والی قابض صہیونی ریاست اور امریکا سامراج سمیت تمام شیطانی قوتیں ملکر بھی فلسطینی عوام سے شوق شہادت اور جذبہ جہاد ختم نہیں کراسکے ہیں۔ بڑے تو اپنی جگہ پر بچوں کا ایمانی جذبہ بھی دیدنی ہے۔ وہ غزہ چھوڑنے کے بجائے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے شہادت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ گولہ بارود اور ظلم کے پہاڑ توڑنے کے باوجود مساجد میں اذان اور پارکوں میں بچے کھیل کود رہے ہیں کیا ایسی قوم و جذبہ کو دنیا کی کوئی طاقت شکست دے سکتی ہے؟ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ حماس نے سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے ذریعے نہ صرف صہیونی ریاست کی بنیادیں ہلاکر کر رکھ دیں ہیں بلکہ وہیں پر دنیا بھر میں جزبہ جہاد کو زندہ اور مسئلہ فلسطین کو پوری دنیا میں نمبر ون مسئلہ بنادیا ہے۔ تجزیہ نگار خود سے کئی گنا زیادہ طاقتور صہیونی ریاست کو بے سروسانی محض اللہ کی توکل سے للکارنے پر حماس کی جرأت کو سلام اور 2ماہ سے اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کو ایک معجزہ قرار دے رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کا اپنی سرزمین سے عشق و محبت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جو فلسطینی اردن اور دیگر ممالک میں کئی دہائیوں سے مقیم ہیں وہ ان ممالک کی شہریت لینے کے بجائے اپنی فلسطینی شناخت برقرار رکھتے ہوئے اس امید پر اپنے گھروں کی چابیاں و نقشے لٹکائے ہوئے ہیں کہ ایک دن ضرور وہ اپنے گھروں پر جاکر بسیں گے اور یہ امید و باتیں وہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی منتقل کر رہے ہیں۔

دو ماہ کی جنگ میں اسرائیل نے چھوٹے سے علاقے غزہ کو مٹی کا ڈھیر اور چاروں طرف گھیر کر دنیا کی سب سے بڑی جیل بنادی ہے اس کی جارحیت سے اسکول پناہ گزینوں کے کیمپ اقوام متحدہ اور ہلال احمر کے زیر انتظام اسپتال بھی محفوظ نہیں رہے مگر اس انسانیت سوز مظالم کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ کیا کوئی دوسرا ملک اس طرح حقوق انسانی کی سرعام بدترین پامالی جنگی جرائم اور انسانیت کا قتل عام کرتا تو امریکا سمیت دیگر عالمی قوتیں اور انسانی حقوقِ کی دعویدار تنظیمیں خاموش رہتی۔؟ روس و یوکرین کی جنگ ہمارے سامنے ہے جس میں روسی جارحیت کے نتیجے میں پورا یورپ یوکرین کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ یوکرین کی جدید اسلحہ سمیت خفیہ فوجی مدد کی جارہی ہے جبکہ روس پر عالمی پابندیاں لگائی گئیں ہیں۔ سوڈان اور انڈونیشیا میں یورپ عیسائی برادری کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادی دلا چکے مگر افسوس کہ فلسطین اور کشمیرکا مسئلہ 76 سال گزر جانے کے باوجود حل ہونے کے بجائے نسل کشی اور بدترین ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے جس پر مسلم حکمرانوں سمیت عالمی دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے آخر کیوں؟۔