انسانیت کے خلاف امریکی جرائم

846

7 اکتوبرکو حماس کے حملوں کے بعد سے اسرائیلی بمباری جنگ 75 سال سے جاری نسل کشی کا تسلسل ہے۔ اس جنگ نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کی شہ اور سرپرستی میں ہونے والی اسرائیلی فوج کی وحشت و درندگی اور نسل کشی کو دنیا کے سامنے عیاں کردیا ہے۔ اس جنگ نے صرف اسرائیل، امریکا، برطانیہ اور فرانس کے جرائم ہی کو عیاں نہیں کیا ہے بلکہ یہ حقیقت بھی دنیا کے سامنے آگئی ہے کہ باقی رہ جانے والے کردار خاموش تماشائی بن کر اس جرم میں شریک بھی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ زبانی طور پر مذمت کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں مسلم حکمرانوں کا رویہ سب سے زیادہ خراب ہے کہ وہ احتجاج اور مذمت کے تقاضے بھی پورے نہیں کررہے ۔یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ غزہ میں ہونے والی جنگ دو برابر کی طاقت رکھنے والی فوجوں کے درمیان نہیں ہے۔ بلکہ حماس کی صورت میں مجاہدین کی ایک چھوٹی سی جماعت آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس کے سامنے ایک بڑی جنگی طاقت ہے جسے امریکا اور برطانیہ کی دولت، صنعت، ٹیکنالوجی اور جدید ترین ہتھیاروں کی مدد حاصل ہے۔ اسرائیل حماس کا مقابلہ کرنے کے لیے ان سے جنگ لڑنے کے بجائے شہری آبادی کو ہدف بنارہا ہے اور اس سلسلے میں اسپتال، اسکول، پناہ گزین کیمپ کی تمیز کے بغیر ہولناک اور تباہ کن بمباری کررہا ہے جس کی وجہ سے شہید ہونے والے لوگوں کی تعداد میں بچے، خواتین اور بوڑھے زیادہ ہیں۔ اسرائیل کی بمباری کا نشانہ بننے والے بھی عام نہتے شہری ہیں۔ اب تو شواہد کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ اسرائیل ممنوعہ کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کررہا ہے، غزہ میں اسرائیل نے ایک بار پھر فاسفورس بم استعمال کیے ہیں جس سے 50 سے زائد فلسطینی شہری شہید ہوئے ہیں۔ یہ افراد بے گھر ہوچکے تھے اور انہوں نے اسکولوں میں پناہ لی ہوئی تھی۔ اسرائیل کے جرائم اور اس کی امریکی سرپرستی کے بارے میں گھر کی گواہی بھی سامنے آگئی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے عسکری امداد کے ڈائریکٹر جوش پال نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی جیل میں قید بچوں کے ساتھ زیادتی اور درندگی کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ جوش پال اسرائیل کو مہلک ہتھیار فراہم کرنے پر احتجاجاً مستعفی ہوگئے ہیں۔ جوش پال نے میرا موقف واضح تھا کہ اگر اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسلیں تباہ کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی، انہیں اسلحہ فراہم کیا گیا تو ان کی ایک ایسی نسل تیار ہوگی جو امریکا کی سخت دشمن ہوگی اور یہ امریکا کے مفاد میں اچھا نہیں ہوگا۔ جوش پال نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ اسرائیل کے فوجیوں نے جیل میں ایک بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس پر آواز اٹھانے والی بچوں کے تحفظ کی تنظیم پر ہی دہشت گرد تنظیم ہونے کا الزام لگادیا۔امریکا ہو یا اسرائیل ان پر کسی قسم کا اخلاقی دبائو کام نہیں کرتا۔ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جنگی طاقت ایک چھوٹے سے خطے کی شہری آبادی کو بمباری کرکے مٹا دینے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ امریکا اور اسرائیل کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ حماس کے خاتمے تک جنگ بندی نہیں کی جائے گی۔ وہ جنگ بند نہ کریں لیکن نہتے شہریوں کے بجائے صرف حماس کے مجاہدین سے میدان میں مقابلہ کریں، لیکن وہ عالمی ذرائع ابلاغ پر تسلط رکھنے کی وجہ سے متکبرانہ طور پر حماس کو دہشت گرد اور انسانیت اور امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کرتے ہیں لیکن اب یہ حقیقت دنیا کے سامنے عیاں ہوگئی ہے کہ امریکا، اسرائیل اور ملحدانہ جدید تہذیب کا غلبہ انسانیت دشمنی کی سب سے مکروہ شکل ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حاصل کرنے کا الزام لگایا اور ایک آزاد خود مختار قوم کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ بعد میں ثابت ہوا کہ یہ الزام جھوٹ لیکن امریکا اور برطانیہ کے حکمرانوں کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں کے عہدیداران تک اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں، لیکن کسی کا بھی زور کام نہیں کررہا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک بار پھر اسرائیلی فوج کے شہری آبادی پر حملے کی مذمت کی ہے اور طبی عملے، اقوام متحدہ کے اہل کاروں اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی تصدیق کی ہے کہ شہریوں پر اسرائیلی حملوں میں امریکی ساختہ گولہ بارود سے حملے جوبائیڈن کے لیے خطرہ کی گھنٹیہونی چاہیے اور شہریوں پر حملوں میں جنگی جرائم کی تحقیقات ہونی چاہیے۔