ملالہ، عافیہ اور اسرائیل

336

عالمی سیاست اور جدید نظام عالم کی حقیقت ظاہر کرنے کے لیے ایک دن کے اخبار میں شائع ہونے والی تین خبریں کافی ہیں۔ عالمی قوتوں کی جانب سے تخلیق کی ہوئی دہشت گردی کے خاتمے کی عالمی جنگ کے عروج کے دوران میں پاکستانی بچی ملالہ یوسفزئی کو آزادی کی علامت بناکر پیش کیا گیا دہشت گردی کی نام نہاد امریکی جنگ کو ختم ہوگئی، دنیا کے سب سے پسماندہ ملک افغانستان پر دنیا کی 49 سے زائد فوجیں چڑھ آئیں۔ 20 سال یہ جنگ جاری رہی، امریکا شکست کھا کر فرار ہونے پر مجبور ہوا اور افغان طالبان کو فتح ہوئی۔ افغان طالبان کی حکومت عملی طور پر قائم ہوچکی ہے لیکن پروپیگنڈا وار جاری ہے۔ پروپیگنڈا وار کے تناظر میں نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے جنوبی افریقا کے رہنما نیلسن منڈیلا کی دسویں برسی کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب میں افغان طالبان پر الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان مین حکمران طالبان نے لڑکی ہونا جرم بنادیا اور اس کا نقصان ہورہا ہے۔ اسکول سے زبردستی نکالی گئی افغان لڑکیاں ڈپریشن اور منشیات کی طرف مائل ہورہی ہیں۔ افغان طالبان کے خلاف یہ پروپیگنڈا جاری ہے لیکن امریکی جیل میں قید پاکستانی لڑکی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل کا ہولناک انکشاف دل و دماغ کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے وکیل اسٹیورڈ اسمتھ نے پاکستان کے کثیر الاشاعت اخبار کے نامہ نگار مقیم امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر عافیہ کو جیل میں کم از کم دوبار جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بحیثیت امریکی یہ بات کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کررہے ہیں کہ یہاں جیل کا نظام ایک مذاق پر مبنی ہے۔ اس بات کا علم حکومت پاکستان کو بھی ہے۔ درد ناک اور ہولناک انکشاف کسی مجرموں کے گروہ کی کارستانی نہیں ہے بلکہ امریکی ریاست کی قیدی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ یہ الگ موضوع ہے کہ وہ کس طرح گرفتار ہوئی، اس پر مقدمہ کس قانون کے تحت چلا، لیکن یہ ہولناک انکشاف وار آن ٹیرر اور تہذیبوں کے تصادم اور ان کے قائدین کی حقیقی ذہنیت بیان کررہا ہے۔ تیسری خبر بھی امریکا اور یورپ سے متعلق ہے۔ امریکی و برطانوی کاشتہ اسرائیل کی ذہنیت کے بارے میں ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کے روحانی رہنما کی حیثیت رکھنے والے فوجی جنرل کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران میں خواتین کی عصمت دری جائز ہے، اس کا بیان اسرائیل کے اخبار شہ سرخی کی صورت میں شائع ہوا ہے۔ 2002ء میں کیا جانے والا تبصرہ آج بھی اسرائیل کی مذہبی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ایسی دہشت رکھنے والے لوگوں کا سیاسی غلبہ انسانیت کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے۔