انتخابات :سیکورٹی توعوام کو چاہئیے

469

عدالت عظمیٰ کی جانب سے آنے والے قومی انتخابات کے انعقاد کو متنازع بنانے کی کوششوں پر سخت کارروائی کی دھمکی کے باوجود بعض حلقوں اور اداروں کی جانب سے یہ کام بدرجہ اتم جاری ہے۔ خود الیکشن کمیشن کا رویہ ایسا ہی ہے۔ تازہ کارروائی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے حکومت سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ انتخابات کے لیے مطلوبہ سیکورٹی اور فنڈز نہیں شفاف پولنگ کے لیے فوج اور کوئیک ریسپانس فورس دی جائے۔ چاروں صوبوں اور وفاق میں الیکشن کے لیے تین لاکھ اٹھائیس ہزا راہلکار دستیاب ہیں دو لاکھ ۷۷ ہزار کی کمی ہے۔ تاہم عدالت کے دبائو پر سیکریٹری خزانہ نے الیکشن کمیشن کو یقین دلایا ہے کہ دو دن میں مطلوبہ فنڈز جاری کر دیں گے۔ اس معاملے میں وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی کہا ہے کہ ۱۷ارب ۴۰ کروڑ روپے کی درخواست کی گئی ہے کوئی مالی بحران نہیں الیکشن کمیشن کو جو رقم درکار ہو گی ضرورت کے مطابق دیں گے۔ آزاد اور منصفانہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے بھی شفاف پولنگ اور سیکورٹی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پر ایک معاصر اخبار جنگ نے موٹی سی سرخی جمائی ہے کہ انتخابات، مطلوبہ سیکورٹی اور فنڈز نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن کی درخواست اور اخبارات کی سرخیوں سے انتخابات 8 فروری کو ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں شبہات تو پید اہونے ہی چاہئیں۔ لیکن اگر الیکشن کمیشن کے مطالبات کے مطابق سارے کام بھی ہو جائیں تو اصل چیز اب بھی رہ جاتی ہے۔ ملک میں اربوں روپے کے اخراجات سے انتخابات کا اہتمام ہو رہا ہے اور ان میں لڑنے والے کھربوں روپے خرچ کریں گے۔ لیکن جن لوگوں کے نام پر یہ سارے اخراجات ہوں گے یعنی عوام ان کے بارے میں کوئی یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ انہیں پرامن ماحول ملے گا۔ قانون کی عملدراری دیکھنے میں آئے گی اور انتخابات شفاف ہوں گے۔ دراصل الیکشن کمیشن اور حکومتی ادارے اور اہلکار صرف کاغذوںپر گنتی کر رہے ہیں کہ اتنے لوگوں اور اتنے پولنگ اسٹیشنوں کے لیے کتنی سیکورٹی درکار ہو گی، سارا حساب کتاب کاغذوں پر ہو رہا ہے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق بھی صرف کاغذوں میں ہوتا ہے سرکار اور ’’بڑی‘‘ سرکار کی پسندیدہ پارٹی کے لوگ غنڈے بنے دندنا رہے ہوتے ہیں۔ پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کرتے ہیں مخالف سیاسی کارکنوں کو باہر نکالتے ہیں مارتے پیٹتے ہیں اور قتل تک کر دیتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں کون سے انتخابات ایسے ہوئے ہیں جنہیں پرامن اورمنصفانہ کہا جا سکتا ہے ۔ہر الیکشن سے قبل کہا تو یہی جاتا ہے کہ انتخابات شفاف پرامن اور منصفانہ ہوں گے لیکن اچھی خاصی بڑی اور ملک گیر جماعتوں کے کارکنوں کے دلوں میں بھی انجانا خوف رہتا ہے پھر عام آدمی جس کے نام پر یہ سارے اخراجات کیے جارہے ہیں اسے کیوں نہ خوف ہو گا۔ فوج اور پولیس کا نام تو لیا جاتاہے لیکن کیا یہ ادارے الیکشن کمیشن کے ماتحت رہ کر کام کرتے ہیں۔ یا کہیں اور اسے کوئی اور ہدایت ان کو ملتی ہے کہ کبھی آر ٹی ایس بیٹھ جاتا ہے کبھی باوردی اہلکار ہی بیلٹ بکس اٹھاتے اور ٹھپے لگاتے دیکھے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن حکومت اور عدلیہ کو بھی یہ سوچنے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ انتخابات کے وی آئی پی عوام یعنی ووٹر ہوتے ہیں لیکن سب سے زیادہ وہی خوفزدہ ہوتے ہیں۔ پورے انتخابی نظام سے عوام کی مایوسی کا اندازہ اس امر سے لگا لیکن کہ کبھی پاکستان میں 50 فیصد سے زیادہ پولنگ نہیں ہو سکی۔ اب تو تیس بتیس فیصد تک بات آگئی ہے گویا کم و بیش 70 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز کو اس نظام پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ پانچ برس میں ایک دن کے لیے نکل کر ووٹ ڈالنے جائیں۔ برسہا برس سے انتخابی فہرستیں، حلقہ بندیاں، پولنگ کا عملہ، پولیس اور فوج کی جانبداری مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ لیکن اسی دقیانوسی طریقے پر الیکشن کرائے جاتے ہیں جس میں لوگوں کو تکلیف پہنچے اور دھکے کھانے پڑیں اور جان کا خوف بھی رہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے فوجی غیر فوجی حکمران نگراں حکومتیں، خودمختاری کی تہمت والا الیکشن کمیشن اتنے برسوںمیں الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام وضع نہیں کر سکے۔ شہروں سے شروع کر کے گائوں دیہات تک یہ کام دو انتخابات کے درمیان کے وقفے میں مکمل کیا جا سکتا تھا لیکن یہ پیچیدہ اور دھاندلی کے لیے آسان نظام ان سب کو سوٹ کرتا ہے اسی لیے وہ اسے تبدیل یا بہتر نہیں کرنا چاہتے۔ جہاں تک روپے پیسے کی بات ہے پاکستان میں جتنا پیسہ حکومت کے پاس ہے اس سے کہیں زیادہ ایک ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر اور اس کے اہم لوگوں کے پاس ہے یا ان کے سرپرست مالدار بزنس مین جو اربوں روپے ان پارٹیوں پر خرچ کر کے انہیں کامیاب کراتے ہیں ان کے پاس ہیں اس کا کوئی حساب بھی نہیں ہوتا الیکشن کمیشن چھوٹی چھوٹی پارٹیوں پر تو انتخابی اخراجات سے متعلق جرمانے کرتا رہتا ہے اور دن دہاڑے کھربوں روپے خرچ کرنے والی پارٹیوں کے دیے گئے حساب پر بے چون و چرا یقین کر لیتا ہے۔ تمام ادارے یہ غور کریں کہ الیکشن عوام کے حق رائے دہی کے استعمال کے لیے ہوتے ہیں کسی محبوب لیڈر یا پسندیدہ پارٹی کے لیے نہیں اصل چیز عوام کو اپنی آزاد مرضی سے اپنی رائے کے اظہار کے لیے آسانی فراہم کرنا ہے۔ جتنی نفری الیکشن کمیشن کے پاس ہے قانون کے نفاذ کا عزم ہو تو یہ نفری بھی کافی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ جب تک عوام میں اعتماد پیدا نہیں کیا جائے گا انتخابی نظام سے ان کی دلچسپی نہیں بڑھے گی توووٹ ڈالنے کا تناسب بھی نہیں بڑھے گا۔