غلط کام ۲۰۱۸میں بھی غلط ہی تھا

653

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان کے نام خط کے جواب میں عدالت عظمیٰ نے وضاحت کی ہے کہ عدالت کو جو لفافہ ملا ہے اس پر دستاویز تیار کرنے والے کا نام نہیں ہے اور لفافہ عدالت کو موصول ہونے سے پہلے ہی میڈیا کو جاری کردیا گیا۔ اس خط میں پی ٹی آئی کی جانب سے توجہ دلائی گئی تھی کہ تحریک انصاف سے وابستہ افراد کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عمران خان نے پی ٹی آئی کے لوگوں کے اغواء اور گمشدگیوں کی جانب توجہ دلائی اور اس کا نوٹس لینے کی اپیل کی تھی جبکہ تمام حکومتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کے لیے ہدایات دینے کی بھی درخواست تھی۔ اس خط میں وہ تمام امور تحریر کیئے گئے ہیں جو آج کل ملک میں ہورہے ہیں اور یہ قابل توجہ ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف کے چیئرمین ۲۰۱۸ کا وہ وقت بھول گئے ہیں جب ان کی پارٹی کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابات سے قبل اور بعد بھی خصوصی طیاروں میں بٹھاکر لوگوں کو ان کی خدمت میں پیش کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہورہے ہیں اس وقت یہی شکوہ دوسری پارٹیوں کو بھی تھا لیکن تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین مطمئن تھے کہ جمہوریت پنپ رہی ہے آج کل جو کچھ ہورہا ہے وہ سراسر غلط ہے اور جو کچھ ۲۰۱۸ میں ہوا وہ بھی غلط تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس خط میں ۲۰۱۸ کے واقعات کا حوالہ دے کر انہیں بھی غلط قرار دیتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ خط عدالت عظمیٰ تک پہنچنے سے قبل میڈیا تک کیسے پہنچ گیا۔ عدالت کے استفسار کی اگرچہ ضرورت نہیں تھی کہ ایسا کیوں ہوا۔ لیکن پھر بھی آج کل فوج عدلیہ حکومت بیورو کریسی کوئی بھی عوامی دبائو کے بغیر قانون کے مطابق چلنے کو تیار نہیں ہے اس لیے ممکن ہے کہ پی ٹی آئی نے دبائو بڑھانے کی غرض سے اس کو پہلے ہی میڈیا میں دید یا۔ میڈیا میں دینے بات دینے سے قطع نظر یہ حقیقت تو اپنی جگہ ہے کہ سیاسی وفاداریاں بھی تبدیل کرائی جارہی ہیں اور اس طرح دبائو ڈالا جاتا ہے کہ مجبور شخص خود کہتا ہے کہ میں نے اپنی مرضی سے فیصلہ کیا ہے۔ عدالت یا تو اس قسم کا میکنزم وضع کرے کہ ایسے لوگ جو وفاداری تبدیل کررہے ہیں انہیں بلواکر ان سے حقائق معلوم کرے اور معاملہ برعکس ہونے کی صورت میں انہیں مکمل تحفظ دیا جائے۔ اگر عدلیہ سچ بولنے والوں کو تحفظ نہیں دے سکے تو عمران خان کے خط کے جواب میں جاری کیا جانے والا اعلامیہ ایک اصولی جواب تو قرار پاسکتا ہے لیکن عملی جواب نہیں ہوگا۔ کون نہیں جانتا کہ ملک میں حکومتیں بنانے اور توڑنے کے کام کون کرتا ہے اگر عدلیہ اس کے ہاتھ روک نہیں سکتی تو پھر عمران خان کے خط کے مندرجات اور اس میں قانونی سقم تلاش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ عدالت کو چاہیے کہ اس سلسلے کو نہ صرف روکے بلکہ ۲۰۱۸ کے واقعات کے بارے میں بھی واضح رائے دے۔ یہ تو اصولی جواب ہے کہ چیف جسٹس کو دبائو میں لایا جاسکتا ہے نہ کسی کی حمایت کریں گے۔ البتہ موقف درست ہے کہ جب اس جماعت کے وکلاے فوجی عدالتوں اور انتخابات کیس کی پیروی کرتے رہے تو پھر اس معاملے میں میڈیا کو کیوں استعمال کیا گیا۔ اب عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس نہیں لیتی تو پی ٹی آئی کے وکلا کو اس معاملے کو بھی عدالت کے روبرو پیش کرنے کی ہدایت کرے اور ٹھوس مکمل فیصلہ دے۔ جہاں تک ناپسندیدہ سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں کو روکنے اور میڈیا پر کوریج نہ دینے کی بات ہے تو یہ کھیل بھی پاکستان میں برسوں پرانا ہے جو پسندیدہ ہے کھیل اس کے گرد گھومتا ہے سارے میڈیا کا کام اسی کی اونچی اڑان کی کوشش ہوتا ہے اور جن لوگوں کو لانے کی کوشش ہورہی ہے ان کا ماضی کا کردار اور کارکردگی ایسی نہیں کہ کہ اس کی بنیاد پر کوئی بھی ذی ہوش ان کو دوبارہ موقع دینے کی غلطی کرے۔