مایا، سلمان، یحییٰ السنوار سے ملاقات؟

740

دنیا کوکروٹ لینے میں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن سچ کو جھوٹ ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ دہشت گرد کون اور کہاں ہے۔ اسی لیے فوری طور پر دنیا کے ایک درجن سے زائد ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد اب اس سے اپنے تعلقات کو ختم کر بیٹھے ہیں۔ حماس اسرائیل جنگ نے ایک نیا موڑ لیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انتونی بلنکن نے رائٹر سے گفتگو میں بتایا کہ غزہ میں فلسطینیوں کے لیے آسانی سے خوراک اور ادویات کی فراہمی جاری رہنی ضروری ہے۔ جس سے معلوم ہو رہا ہے کہ اب امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اس بات علم ہوگیا ہے کہ وہ اس جنگ کو جس قدر طویل دیں گے اس کا نقصان اسرائیل اور امریکا کو ہوگا۔ یہ بات اس وقت اور کھل کر سامنے آگئی جب 23نومبر کو حماس کی قید سے رہا ہونے والی یہودی لڑکی ’’مایا‘‘ نے دنیا بھر کے میڈیا کو یہ بتایاکہ اُس نے یحییٰ السنوار سے ملاقات کی ہے؟ اس اطلاع کے ملتے ہی اسرائیل غزہ پر چڑھ دوڑا جس کے فوری بعد ایک مرتبہ پھر اس مجاہد کے چرچے ہونے لگے جس کا نام ’’یحییٰ السنوار‘‘ ہے۔
اسرائیل کی آرٹیفشل اور انسانی انٹیلی جنس جس کا چرچا ساری دنیا میں ہے اس نے سات اکتوبر کو حماس کے حملے کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار یحییٰ السنوار پر ڈال دی ہے اور خود فلسطینیوں کے قتل کا حساب دینے کے بجائے حماس حماس کی پکار لگائے ہوئے ہے۔ اب یہ ایک حقیقت ہے کہ 7اکتوبر سے آ ج تک اسرائیلی یحییٰ السنوار کو گرفتار کرنے میں مکمل طور سے ناکا م رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حماس کی جانب سے 7اکتوبر کا حملہ اسرائیل کی تاریخ میں بطورِ ریاست سب سے بڑا حملہ تھا، جس میں اسرائیل کے مطابق تقریباً 1200 فراد ہلاک ہو گئے تھے اور واپس جاتے ہوئے حماس کے مجاہدوں نے تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ جس کی تلاش میں اسرائیل نے 2000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا لیکن انصاف سے عاری دنیا آج بھی اسرائیل کی عسکری مدد میں مصروف ہے۔ عالمی اخبارات کی اطلاعات کے مطابق اب تک اسرائیل کے اس جنگ میں 65 سے 70 ارب ڈالرز کے اخراجات ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی جیلوں میں 23برس قید کاٹنے والا، حماس کے داخلی سیکورٹی ڈھانچے کے بانی اور امریکا کو سب سے زیادہ مطلوب نام نہاد ’بین الاقوامی دہشت گردوں‘ میں سے ایک، اکسٹھ سالہ یحییٰ السنوار کئی برسوں سے غزہ میں حماس کے سربراہ ہیں۔ اسرائیل کو حماس کے سربراہ کی اتنی شدت سے تلاش ہے کہ اسرائیلی حکام کے مطابق یحییٰ السنوار اب ایک ’’چلتی پھرتی لاش‘‘ ہے۔ یہ الگ بات کے ’’یحییٰ السنوار‘‘ نے بہت سارے چلتے بھرتے اسرائیلی فوجیوں کولاش میں تبدیل کر دیا ہے۔ اسرائیل نے حماس کے حملے کے بعد غزہ پر مسلسل زمینی اور فضائی حملے شروع کر دیے تھے، جن میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق تقریباً 15 ہزار غیر جانبدار ذرائع کے مطابق 21 ہزار فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے۔ شہدا میں 8ہزار 600 بچے اور 5400 خواتین بھی شامل ہیں۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ میں گزشتہ چند دنوں سے جو عبوری فائر بندی جاری ہے، اس کے نتیجے میں اب تک حماس اپنے زیر قبضہ یرغمالیوں میں سے بیسیوں کو رہا کر چکی ہے جبکہ اسرائیل بھی ڈیڑھ سو سے زائد فلسطینی قیدیوں کو جیلوں سے رہا کر چکا ہے اور ان میں بھی خواتین اور بچے شامل ہیں۔
اکسٹھ سالہ السنوار کا نام امریکا نے 2015ء میں اپنی سب سے زیادہ مطلوب ’’بین الاقوامی دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں شامل کر لیا تھا اور یہ لسٹ اب بھی برقرار ہے۔ السنوار کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ سات اکتوبر کے روز حماس نے اسرائیل پر حملے کی ایک سال سے لے کر دو سال کے عرصے تک باریک بینی سے منصوبہ بندی کی تھی۔ اس اچانک حملے نے ہر کسی کو حیران کر دیا تھا۔ اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے ’’اس حملے نے نہ صرف اسرائیل امریکا، فرانس اور برطانیہ کو حیران کر دیا تھا بلکہ اس کی وجہ سے طاقت کا زمینی توازن بھی مکمل طور سے بدل گیا ہے اور اب یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے اسرائیل امریکا، برطانیہ، فرانس، کنیڈا اور دیگر غیر اسلامی افواج اسلامی مجاہدین سے زمینی جنگ میں قطعی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی افغانستان کے غزہ میں دنیا نے یہی کچھ دیکھا ہے۔ اسرائیل کے 54دن کی بمباری کے بعد بھی 80فی صد غزہ پر حماس کا قبضہ ہے اور محمود عباس کے فلسطین کے اصل حاکم بھی حماس ہی ہے۔ اے ایف پی کا کہنا ہے کہ یحییٰ السنوار اپنی راز داری کے لیے جانے جاتے ہیں اور وہ بہت ہوشیار سیکورٹی آپریٹر ہیں۔
فلسطینی کے نام نہاد صدر محمود عباس دو ہفتے قبل امریکی وزیر خارجہ بلنکن کے ساتھ ویسٹ بینک کے شہر رام اللہ میں ملاقات کی تھی لیکن سات سال سے بے گناہ لڑکی سلمان کو رہا نہ کراسکے اور اب حماس نے اس بے قصور فلسطینی کو رہائی دلوائی جس کا جرم یہ تھا اس کے سائیکا لوجیکل ٹیسٹ میں یہ ثابت ہو گیا تھا کہ اس لڑکی میں مزاحمت کرنے سکت موجود ہے۔
یحییٰ السنوار نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی اور پھر مختلف اسرائیلی جیلوں میں 23 سال تک قید کاٹنے کے دوران اس نے عبرانی زبان میں اتنی مہارت حاصل کر لی تھی کہ وہ یہ زبان روانی سے بول سکتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی ثقافت اور معاشرے کی بڑی گہری سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہے۔ السنوار کو دو اسرائیلی فوجیوں کے قتل کے جرم میں چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پھر 2011ء میں جب اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی سے متعلق مفاہمت ہو گئی، تو اسرائیل نے جن 1,027 فلسطینیوں کو رہا کیا تھا، ان میں سے یحییٰ السنوار سب سے سینئر فلسطینی قیدی تھے۔ اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد یحییٰ السنوار نہ صرف عزالدین القسام بریگیڈز کا سینئر کمانڈر بن گئے، بلکہ انہوں نے حماس کے اس عسکری بازو کی قیادت کے ساتھ ساتھ غزہ میں اس عسکریت پسند گروپ کی مجموعی قیادت بھی سنبھال لی تھی۔ غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالنے کے بعد السنوار نے یہ بھی کیا کہ مسئلہ فسلطین دفاع سے زیادہ بڑا مسئلہ بنا دیا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کا کہنا ہے کہ یحییٰ السنوار کا خواب یہ ہے کہ غزہ اور صدر محمود عباس کی فتح پارٹی کے کنٹرول والے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے پر مشتمل فلسطینیوں کی اپنی ایک آزاد ریاست قائم ہونا چاہیے، جس میں مشرقی یروشلم کا وہ مقبوضہ حصہ بھی شامل ہو، جسے اسرائیل یک طرفہ طور پر اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر چکا ہے۔ لیکن ’’یحییٰ السنوار‘‘ اور حماس کا یہی اعلان ہے کہ ’’ہار نہ جانا ہمت کہیں! ایک سا وقت رہتا نہیں‘‘ اب یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسطین ضرور آزاد ہو گا، ان شا اللہ!