آئی ایم ایف کی غلامی میں پاکستان

749

پاکستان میں مہنگائی عروج پر ہے اور ملک آئی ایم ایف کی غلامی میں جاچکا ہے۔ سیاست دانوں کی نوراکشتی اور اسٹیبلشمنٹ کا کھیل جاری ہے۔ لوٹ کھسوٹ کی آپسی لڑائیوں سے قطع نظر حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے تمام دھڑے عوام دشمنی میں متفق ہیں۔ میڈیا کسی اشارے پر الزامات، افواہوں، اسکینڈلز، اور ذاتیات پر مبنی غلاظت کو زبردستی پورے معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس سیاسی شور شرابے کے پیچھے یہ اہم حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ ملک معاشی بحران کا شکار ہے، مہنگائی کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے، اور عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ بجلی، گیس اور دیگر ضروریات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ عوام کا گزارہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف نے اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کردیا ہے، پاکستان کی موجودہ حکومت نے اُس کی ایک اور شرط پوری کرتے ہوئے ریاست کے چار اداروں یعنی نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ، نیشنل شپنگ کارپوریشن اور براڈکاسٹنگ کارپوریشن سے حکومتی کنٹرول ختم کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ان اداروں کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو الگ الگ ہوں گے، بورڈز میں آزاد ارکان کا تقرر کیا جائے گا، اور ان اداروں کی کارکردگی رپورٹ وزارتِ خزانہ میں قائم سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ کو بھجوائی جائے گی۔ یہ تبدیلیاں آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو قرض دینے کے لیے کی گئی ہیں۔ اس سے قبل آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض دینے کے لیے کچھ سخت شرائط عائد کی تھیں، جن پر عمل درآمد کرتے ہوئے حکومت نے مہنگائی میں اضافہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں ٹیکسوں میں اضافہ، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا، اور سرکاری اخراجات میں کمی شامل ہیں، لیکن حکومت نے عملاً ہر وہ کام کیا جس سے عوام کے اوپر بوجھ بڑھے، لیکن حکومت کے اللوں تللوں اور اخراجات میں کمی دیکھنے کو نہیں ملی جس سے آئی ایم ایف کو بھی کوئی غرض نہیں ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تبدیلیاں پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کو نقصان پہنچائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے حکومت کے کنٹرول میں رہنے والے ادارے آئی ایم ایف کے کنٹرول میں آجائیں گے۔ یہ بات درست ہے کہ جب کوئی ملک آئی ایم ایف کی غلامی میں جاتا ہے تو اسے آئی ایم ایف کی ناجائز باتوں کو بھی ماننا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف اکثر اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لیے ممالک پر ایسی شرائط عائد کرتا ہے جو ان کی آزادی اور خودمختاری کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے مہنگائی میں اضافہ کیا، لیکن اس سے ملکی معیشت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ بلکہ مہنگائی میں اضافے کے باعث ملک میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اس بحران کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامیاں ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں معیشت کا کنٹرول سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ سرمایہ دار اپنے ذاتی مفادات کے لیے معیشت کو استعمال کرتے ہیں، جس سے عام لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامیاں صرف معاشی نہیں ہیں، بلکہ سماجی اور سیاسی بھی ہیں۔ ملک میں فساد، دہشت گردی اور عدم استحکام میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ سب مسائل بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر موجود تضادات کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا بھر میں غربت، بے روزگاری اور ناانصافی کو بڑھایا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامیاں پاکستان میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
پاکستان کو اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک حقیقی اور جامع معاشی منصوبے کی ضرورت ہے۔ اس منصوبے میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے، غربت اور بے روزگاری کو کم کرنے، اور ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔ معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس میں ٹیکس وصولی میں بہتری لانا، غیر قانونی آمدنی کے ذرائع کو بند کرنا، اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا شامل ہے۔ اسی طرح تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے بھی ضروری اقدامات کرنا ہوں گے، اس میں برآمدات کو فروغ دینا اور درآمدات کو کم کرنا شامل ہے۔ پاکستان کو اپنے بیرونی قرضے کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس میں قرضوں کی ادائیگیوں کو کم کرنا اور قرضوں پر سود کی شرح کو کم کرنا شامل ہے۔
حکومت کو ایک ایسا منصوبہ تیار کرنا چاہیے جو ملک کی معیشت کو مضبوط اور خودکفیل بنانے کے لیے ضروری اقدامات کا احاطہ کرتا ہو۔ یہ اقدامات کرنے کے لیے پاکستان کو ایک مضبوط اور متحد حکومت کی ضرورت ہے، اور اس کا موقع متوقع انتخابات میں پاکستانی عوام کو ملنے کے امکانات موجود ہیں، کیونکہ وطنِ عزیز کے معاشی، سماجی حالات ٹھیک کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور سرمایہ دارانہ نظام سے نجات بھی ضروری ہے۔ پاکستان کو ایک ایسے نظام کی طرف جانا ہوگا جو عام لوگوں کے مفادات کو یقینی بنائے۔ ایسا نظام صرف اسلامی نظام ہوسکتا ہے۔ اسلامی نظام ایک منصفانہ اور مساوی نظام ہے، اس میں معیشت کا کنٹرول اللہ کے قانون کے مطابق ہوتا ہے اور یہی مطلوب ہے۔ اگر مستقبل میں ایسا نہیں ہوسکا تو خاکم بدہن آج آئی ایم ایف نے ریاست کے چار اداروں کا حکومتی کنٹرول ختم کیا ہے، کل وہ مغرب اور امریکا کے کہنے پر پاکستان کی سلامتی کی ضمانت جوہری پروگرام کو لپیٹنے اور ختم کرنے کی بھی شرط لگا سکتا ہے، اور اگر صورت یہی رہی تو وہ جلد ایسا کرے گا، اُس کا اصل نشانہ ہی پاکستان کا جوہری پروگرام ہے۔ پاکستان کے عوام کو حکمرانوں پر دبائو ڈالنا ہوگا کہ وہ آئی ایم ایف کی غلامی کی زنجیریں توڑنے کی کوشش کریں، ایسے معاہدے نہ ہوں جن سے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کو نقصان پہنچے۔ جو قومیں عزت اور غیرت کے ساتھ زندہ رہتی ہیں وہی ترقی کرتی اور قائم رہتی ہیں۔ پاکستان کو بھی اپنی عزت اور غیرت کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔