عام انتخابات… اہم اور مثبت پیش رفت

449

ملک میں آئندہ عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔ قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 266 ہو گی جبکہ مخصوص نشستیں ملا کر ایوان 336 ارکان پر مشتمل ہو گا، خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد 60 ہو گی، قومی اسمبلی میں پنجاب سے خواتین کی 32 اور سندھ سے 14 مخصوص نشستیں ہوں گی، خیبر پختونخوا سے 10 اور بلوچستان سے 4 خواتین مخصوص نشستوں پر رکن بنیں گی، اقلیتوں کی 10 نشستیں برقرار رکھی گئی ہیں۔ آئندہ وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی میں 172 کے بجائے 169 ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔ الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیاں ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر مکمل کیں۔ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر کو جاری کی گئی تھی جس پر 109 اضلاع سے 1324 اعتراضات موصول ہوئے تھے، الیکشن کمیشن کے 2 خصوصی ٹربیونلز نے یکم نومبر سے 22 نومبر تک مرحلہ وار تمام اعتراضات نمٹائے۔ نئی حلقہ بندیوں میں سابق فاٹا کی 6 نشستیں کم ہو گئیں، سابق فاٹا کی 12 نشستیں تھیں جو 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد کم ہوئی تھیں، چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 593 جنرل نشستیں ہوں گی۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141، سندھ میں 61 جنرل نشستیں ہوں گی، خیبر پختونخوا میں 45 جب کہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 جنرل نشستیں ہوں گی، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی 3 جنرل سیٹیں ہوں گی۔ سانگھڑ کی قومی اسمبلی کی نشستیں 3 سے کم ہو کر 2 رہ گئیں، کراچی سائوتھ میں قومی اسمبلیکی ایک نشست کا اضافہ ہو گیا، اس طرح کراچی سائوتھ کی نشستیں 2 سے بڑھ کر 3 ہو گئیں۔ پنجاب اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 297 ہو گی۔ سندھ اسمبلی کی جنرل نشستیں 130 ہوں گی، خیبر پختونخوا اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 115 ہو گی، بلوچستان اسمبلی کی جنرل نشستیں 51 ہوں گی۔ خیر پور، سانگھڑ اور ٹھٹھہ کی ایک ایک صوبائی نشست کم ہو گئی جب کہ ملیر، کراچی ایسٹ اور کراچی سینٹرل میں ایک ایک صوبائی نشست میں اضافہ ہو گیا۔ خیر پور میں صوبائی اسمبلی کی نشستیں 7 سے کم ہو کر 6 ہو گئیں، سانگھڑ کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 6 سے کم ہو کر 5 ہو گئیں، ٹھٹھہ کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 3 سے کم ہو کر 2 ہو گئیں جب کہ ملیر کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 5 سے بڑھ کر 6 ہو گئیں۔ کراچی ایسٹ کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 8 سے بڑھ کر 9 ہو گیں۔ کراچی سینٹرل کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 8 سے بڑھ کر 9 ہو گئیں۔

عام انتخابات کے حوالے انتخابی حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست کا اجراء یقینا ایک اہم اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے عام انتخابات کے لیے آٹھ فروری کی تاریخ کے فیصلہ میں اگرچہ واضح طور پر اعلان کیا گیا تھا کہ اس تاریخ میں اب کوئی ردو بدل برداشت نہیں کیا جائے گا اور آٹھ فروری کو ہر صورت عام انتخابات کو یقینی بنانا ہو گا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں ذرائع ابلاغ کو بھی آٹھ فروری کو عام انتخابات سے متعلق کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات کے اظہار اور ان کی تشہیر و اشاعت کی سختی سے ممانعت کی تھی مگر اس کے باوجود مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے انتخابات کے آٹھ فروری کو انعقاد کے بارے میں بے یقینی اور اس کے التوا کی افواہیں گردش کر رہی ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو ایک روز قبل ایسی خبروں کی سختی سے تردید بھی کرنا پڑی… کمیشن کے ترجمان نے انتخابات میں تاخیر کی خبروں کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے بعض ذرائع ابلاغ کی ان اطلاعات کو بھی سراسر جھوٹ پر مبنی اور حقائق کے منافی ٹھہرایا کہ انتخابی فہرستیں بروقت تیار نہیں کی جا سکیں… الیکشن کمیشن کے رد عمل کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کمیشن نے ایسی خبروں کی اشاعت کے خلاف پیمرا سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ گمراہ کن اور جھوٹی خبریں چھاپنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ کمیشن نے ان خبروں کی تردید کے ساتھ یہ وضاحت بھی جاری کی کہ انتخابی فہرستیں نہ صرف تیار ہیں بلکہ تجدید شدہ حتمی فہرستوں کی آئندہ عام انتخابات میں استعمال کے لیے طباعت بھی نادرا میں جاری ہے اور ان کی مختلف اضلاع میں ترسیل کے کام کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے… الیکشن کمیشن کی ان وضاحتوں پر یقین نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تاہم اس حقیقت سے بھی صرف نظر ممکن نہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران حکومت اور الیکشن کمیشن کے انتخابات سے متعلق طرز عمل نے قوم کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ اپریل 2022ء میں جس طرح تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خاں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرایا گیا، پھر تحریک کے مستعفی ہونے والے سوا سو سے زائد ارکان کے استعفوں کو بھی جان بوجھ کر لٹکایا گیا اور کبھی گروپوں کی شکل میں مشکوک انداز میں ان کی منظوری کے اعلانات کئے گئے اور آئین میں مقررہ ساٹھ دن کی مدت میں مستعفی ارکان کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا معاملہ مسلسل لٹکائے رکھا گیا اور پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی سولہ ماہ کی حکومت کے دوران قومی اسمبلی کے نصف کے قریب ارکان کو ایوان سے باہر رکھ کر آدھی اسمبلی سے اہم قانون سازی اور دیگر معاملات کی منظوری لے کر مجلس شوریٰ کی تضحیک کا سامان کیا جاتا رہا۔ اسی طرح ایک سال قبل جنوری 2023ء میں جب تحریک انصاف نے پنجاب اور صوبہ خیبر میں یکے بعد دیگرے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو آئین کی واضح شقوں کی روشنی میں نہ تو نوے دن میں اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق چودہ مئی 2023ء کو ان صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے گئے… اس آئین شکنی اور توہین عدالت عظمیٰ کے اقدامات میں حکومت کے علاوہ الیکشن کمیشن کا کردار بھی کسی طرح قابل ستائش نہیں رہا۔ اس لیے آج اگر مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کے عام انتخابات سے متعلق اعلانات پر عدم اعتماد اور بے یقینی کا اظہار کیا جاتا ہے تو کمیشن کا ماضی کا کردار اس کا جواز فراہم کرتا ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کو ایسی خبروں اور اطلاعات پر جزبز ہونیکے بجائے سنجیدگی سے اپنے اعتماد کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات پر توجہ مرکوز رکھنا چاہئے اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کے مطابق ایسے صاف، شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا چاہئے جن کے نتائج پر تمام فریق اطمینان کا اظہار کرنے پر مجبور ہوں اور کسی کو ان پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ اس وقت ملک کو جس طرح کی بحرانی کیفیت اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے اس سے نجات ملک کے ہر فرد کے لیے قابل اعتماد انتخابات ہی کے ذریعے ممکن ہے بلاشبہ اس میں دیگر اداروں کا بھی اہم کردار ہے مگر بنیادی اور اہم ترین ذمہ داری بہرحال الیکشن کمیشن ہی کی ہے…!!!

جہاں تک نئی حلقہ بندیوں کا تعلق ہے تو ان میں ایک اہم اور نمایاں تبدیلی یہ دکھائی دیتی ہے کہ کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں قدرے اضافہ ہو گیا ہے جو اگرچہ کراچی کے عوام کی توقعات اور خواہش سے تو بہت کم ہے اس ضمن میں جماعت اسلامی اور اس کے کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے جو سیاسی، سماجی، آئینی و قانونی اور عدالتی جدوجہد کی، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور جماعت اسلامی نے ڈیجیٹل مردم شماری کو فراڈ قرار دے کر مسترد بھی کیا ہے تاہم وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں انتخابات میں اس کے باوجود حصہ لے گی تاکہ اس بہانے انتخابات میں تاخیر یا رکاوٹ نہ ڈالی جاسکے۔