غزہ میں وبائیں… سبب صرف اسرائیل

636

سترہ سالہ محاصرے اور غیر انسانی رویے کے بعد انسان نما جانوروں کی پچاس روزہ اندھا دھند بمباری کے نتیجے میں غزہ میں جان لیوا بیماریوں نے بسیرا کرلیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے عالمی ادارہ صحت نے رپورٹ دی ہے کہ ایک لاکھ کیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔ ادارے کی ترجمان مارگریٹ ہیرس نے کہا کہ غزہ میں اسہال اور سانس کی بیماریوں کے ایک لاکھ کیسز درج ہوچکے ہیں اور اگر غزہ میں صحت و صفائی کا نظام بحال نہ ہوا تو لوگ بم سے زیادہ بیماریوں سے مر سکتے ہیں۔ 7 اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی حملے جاری ہیں اور تمام بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوگیا ہے۔ پانی پہلے ہی بند ہے، بجلی کی بندش سے سیکڑوں مریض دم توڑ چکے، اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، ایندھن پر بھی پابندی ہے۔ ادارہ صحت کی ترجمان نے صورت حال کی سنگینی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صفائی کی ناقص صورت حال کی وجہ سے پیٹ کی خرابی جیسے دیگر امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ بدقسمتی سے علاج کا نظام تباہ ہوگیا ہے۔ ادارے نے غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال پر حملے کو محض المیہ قرار دیا ہے اور اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں اسپتال کے ڈائریکٹر اور سینئر ڈاکٹرز کو حراست میں لینے پر بس تشویش ظاہر کی ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کا قیام تو انسانیت کے تحفظ جنگوں کے خاتمے اور جنگی جرائم کی روک تھام یا بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کے نام پر عمل میں آیا تھا لیکن اب یہ ادارہ ان تمام معاملات میں صرف کمنٹری کرتا ہے۔ چناں چہ عالمی ادارہ صحت نے بھی کمنٹری شروع کردی ہے کہ غزہ میں کیا ہورہا ہے۔ اب تو ذرائع ابلاغ اتنے تیز ہوگئے ہیں کہ اگر عالمی سطح پر غزہ کا بائیکاٹ بھی کیا جارہا ہو تو بھی سماجی ذرائع ابلاغ خصوصاً ایلون مسک کی وجہ سے آج ساری دنیا کے سامنے حقائق آچکے ہیں۔ اقوام متھدہ لاشیں گننے، مریضوں کی تعداد گننے اور نقصانات کا تخمینہ لگانے والا ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے جو کچھ بتایا ہے اس کی روشنی میں اسے اپنی یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے حوالے کرکے یہ مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ چونکہ تمام مسائل اور مصائب کا سبب اسرائیل کا قبضہ ہے اس لیے اس کو اس کا ذمے دار قرار دے کر اس سے جرمانہ بھی وصول کیا جائے اور پابند کیا جائے کہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ لیکن اب اقوام متحدہ نے بہت ساری دکانیں کھول لی ہیں۔ ایک دکان پر صحت کے حوالے سے پرچار ہوتا ہے اور فنڈز کا تخمینہ لگا کر فنڈز حاصل کیے جاتے ہیں۔ دوسری دکان میں بچوں کی صحت اور تعلیم کا چورن بیچا جاتا ہے۔ تیسری دکان میں تعمیر نو کا خواب دکھایا جاتا ہے۔ غرض ہر کام کے لیے ادارہ بنا ہوا ہے جو ہر کام کے لیے فنڈز جمع کرتا ہے۔ دنیا کے سامنے اسرائیلی مظالم تو آگئے ہیں لیکن مسلمان حکمرانوں کو خصوصاً یہ کام کرنا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین کا اصل پہلو اجاگر کریں اور دنیا کو اسرائیلی قبضہ ختم کرانے پر رضا مند کریں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلم حکمران تو خود اسرائیل کے ترجمان اور پشتیباں بن گئے ہیں اور سب کا زور اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی پر ہے۔ اور اب اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کی رپورٹ کے بعد سب صحت کے لیے فنڈز جمع کرنے کی مہم پر لگ جائیں گے۔ اصل مسئلہ غائب فلسطینیوں کے علاقوں میں اسرائیلیوں کی آبادکاری، ان کا اپنی ریاست بنانے کا اعلان، مزید علاقوں پر قبضے اور بستیوں کو مسمار کرنا سب پس پشت چلا گیا۔ ادارہ صحت کی رپورٹ میں جن باتوں پر توجہ دلائی گئی ہے اگر سارے فساد کی جڑ اسرائیل اور مسلم حکمران درمیان سے ہٹ جائیں تو دنیا بھر کی رضا کار تنظیمیں ہی ان مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن نہایت مشکل حالات میں امدادی کام کررہی ہے اگر جابرانہ رکاوٹیں ہٹا لی جائیں تو ایک دو ہفتے میں حالات معمول پر آنا شروع ہوجائیں گے۔ اقوام متحدہ پر انحصار تو مستقل الجھے رہنے کا راستہ ہے۔ مسئلہ حل ہوگا نہ کسی کو خود حل کرنے دیا جائے گا۔ کشمیر و فسلطین تو پچھتر اور اسی برس سے اس کے پاس پڑے ہیں۔ اس ادارے کی افادیت صرف اعداد و شمار جمع کرنا اور جابر حکمرانوں اور ظالموں کی مدد کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس کے غزہ کے سب سے بڑے اسپتال الشفا پر حملے کو المیہ قرار دینے اور سینئر ڈاکٹروں کی گرفتاری پر تشویش سے ہورہا ہے۔ اسے اس کے بجائے اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دینا چاہیے تھا۔ پینے کا پانی بھی غزہ میں نہیں پہنچنے دیا جارہا۔ جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیلی فوج خلاف ورزیاں کررہی ہے۔ مزید لوگوں کو مغربی کنارے پر شہید کیا گیا ہے۔ حماس نے اس وجہ سے ایکس کے مالک ایلون مسک سے کہا ہے کہ جس طرح انہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے اسی طرح غزہ کا بھی دورہ کریں اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی انسانی تباہی کا مشاہدہ کریں۔ ایک خبر کے مطابق ایلون مسک نے فی الحال دورے کی دعوت قبول نہیں کی ہے جبکہ ایک انٹرویو میں جب انہیں کہا گیا کہ آپ کے اشتہارات رک جائیں گے تو مسک نے کہا کہ روک دیں، نہ دیں اشتہار۔ مجھے اشتہار سے بلیک میل نہ کیا جائے یہ بات بھی اب سامنے آچکی ہے کہ حماس کی قید سے رہا ہونے والے یہودیوں نے تل ابیب میں حماس کی حمایت میں جلوس نکالا ہے بس اقوام متحدہ اور مسلم حکمران سو رہے ہیں۔