!قصہ لال حویلی کا

494

پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ لال حویلی پھر شیخ رشید کو واپس مل گئی ہے اور اس کی رونقیں بحال ہوگئی ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے ممکن ہوا کہ شیخ رشید نے مشہور زمانہ ’’چلّے‘‘ سے واپس آکر 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی اور اسے ایک لعنتی پروگرام قرار دیا۔ انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے اور اعلان کیا کہ چِلّے کے دوران ان پر کوئی تشدد نہیں ہوا اس کے ساتھ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ اگر ان پر تشدد ہوا بھی تھا تو انہوں نے تشدد کرنے والوں کو معاف کردیا ہے۔ شیخ صاحب نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے پاک فوج زندہ باد کے نعرے بھی لگائے اور کہا کہ وہ ہمیشہ سے پاک فوج کے ساتھ ہیں اور آئندہ بھی ساتھ رہیں گے۔ اس اعترافی اور تہنیتی بیان کے بعد حویلی کو سرکاری تحویل میں رکھنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ چناں چہ لال حویلی کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر واگزار کردیا گیا۔ اب شیخ رشید لال حویلی میں براجمان ہیں اور وہاں سے فوجی قیادت کے حق میں بیانات داغ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے تازہ بیان میں چیف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سے ہاتھ جوڑ کر استدعا کی ہے کہ 9 مئی کے بے گناہوں کو معاف کردیا جائے۔ اس بیان میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ ہے کہ 9 مئی کے گناہگاروں کو ضرور سزا دی جائے البتہ جو بے گناہ ہیں ان کے ساتھ نرمی برتی جائے۔ لیکن کون گنہگار ہے اور کون بے گناہ۔ اس کا فیصلہ شیخ رشید نہیں کرسکتے۔ اس فیصلے کا اختیار بھی مقتدرہ کے پاس ہے جس نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو پکڑا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ پکڑے گئے ہیں انہیں بے گناہ قرار نہیں دیا جاسکتا اس لیے اندازہ یہی ہے کہ شیخ رشید کی یہ استدعا بے اثر رہے گی اور گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائیں گے۔ شیخ رشید شکر کریں کہ انہیں 9 مئی کے واقعات میں ملوث قرار نہیں دیا گیا اور بات ’’چِلّے‘‘ پر ٹل گئی ورنہ انہیں جان بچانے کے لیے نجانے کیا کرنا پڑتا اور لال حویلی بھی ہمیشہ کے لیے ان کے ہاتھ سے نکل جاتی۔

لال حویلی کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ راولپنڈی کے بوہڑ بازار میں واقع یہ عمارت متروکہ املاک میں شمار ہوتی ہے۔ اس قسم کی املاک کا انتظام متروکہ املاک وقف بورڈ کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ لال حویلی کسی ہندو عورت کی ملکیت تھی۔ برصغیر تقسیم کے بعد وہ نقل مکانی کرکے بھارت چلی گئی اور اس عمارت میں مہاجروں کے کئی خاندان آباد ہوگئے۔ ان میں ایک خاندان شیخ رشید کا بھی تھا۔ شیخ رشید جب سیاست میں آئے تو ان کا اثر رسوخ بہت بڑھ گیا اور انہوں نے آہستہ آہستہ سب مکینوں کو نکال باہر کرکے پوری حویلی پر قبضہ کرلیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ لال حویلی کے حقیقی وارث ہیں لیکن ایسا نہیں ہے ان کی حیثیت ایک غیر قانونی قابض کی ہے۔ شیخ رشید نے اسے اپنا سیکرٹریٹ بنا رکھا ہے جب ان کی سیاست عروج پر تھی تو وہ یہیں سیاستدانوں اور غیر ملکی سفیروں سے ملاقات کیا کرتے تھے۔ بوہڑ بازار راولپنڈی کا یہ علاقہ ان کا حلقہ انتخاب بھی ہے اور وہ یہیں پلے بڑھے ہیں، اس لیے لال حویلی کی ان کے نزدیک بڑی اہمیت ہے جبکہ اب خود وہ یہاں رہائش نہیں رکھتے۔ ان کی شب بسری کے کئی ٹھکانے ہیں۔ البتہ لال حویلی ان کی سیاسی پہچان کی حیثیت رکھتی ہے۔ بے نظیر بھٹو جب اپوزیشن لیڈر تھیں اور شیخ رشید مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وفاقی وزیر اطلاعات تھے تو قومی اسمبلی میں بے نظیر بھٹو پر نہایت بیہودہ جملے کسا کرتے تھے، اگلے انتخابات میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آگئی اور بے نظیر وزیراعظم بن گئیں تو انہوں نے شیخ رشید کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ پہلے لال حویلی پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی اور جی ایچ کیو سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال نے ساری کارروائی رکوا دی۔ پھر پیپلز پارٹی کی

حکومت نے شیخ رشید کو عبرتناک سزا دینے کا فیصلہ کیا اور لال حویلی سے بغیر لائسنس کی کلاشنکوف برآمد کرکے انہیں گرفتار کرلیا اور اڈیالہ جیل میں رکھنے کے بجائے ڈیرہ غازی خان کی جیل میں بھیج دیا، جہاں وہ طویل عرصے تک قید میں رہے اور ان کی عقل ٹھکانے آگئی۔ رہا ہوئے تو آصف زرداری کے پائوں پکڑ کر ان سے معافی مانگ لی۔ زرداری کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ بلاوجہ دشمنی پالنے کے قائل نہیں ہیں۔ دشمن معافی مانگ لے تو وہ اسے معاف کردیتے ہیں، وہ دوستی کا ہاتھ بڑھائے تو دوست کی حیثیت سے اس کا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔ ان کا اصل ٹارگٹ زیادہ سے زیادہ مال بنانا ہے اور دشمنی کے ماحول میں یہ ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ایم کیو ایم اور نواز شریف ان کے بدترین دشمن تھے لیکن ان کی معافی اور دوستی کی پالیسی نے ان دونوں کو بھی اپنے حلقہ اثر میں شامل کرلیا اور سندھ پندرہ سال تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کرتے رہے اور کرپشن اور لوٹ مار کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں کہ سن کر حیرت ہوتی ہے۔ خیال تھا کہ اگلے انتخابات میں سندھ پیپلز پارٹی سے لے لیا جائے گا اور وہاں کوئی معقول حکومت قائم کی جائے گی لیکن اب بتایا جارہا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکے گا اس لیے کہ زرداری نے مقتدرہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ہے اور اس سے کہا ہے کہ اگر وہ وفاق میں نواز شریف کو برسراقتدار لانا چاہتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ بشرطیکہ سندھ ہمارے پاس رہنے دیا جائے بصورت دیگر ہم اس الیکشن کو چیلنج کرکے اس کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ مقتدرہ کو موجودہ صورت حال میں پیپلز پارٹی کی یہ مخالفت وارا نہیں کھاتی کیونکہ پی ٹی آئی پہلے ہی اس کے خلاف میدان میں ہے، چناں چہ کہا جارہا ہے کہ مقتدرہ نے سندھ میں پیپلز پارٹی کو گرین سگنل دے دیا ہے اور

معروف اینکر پرسن کامران خان نے پیپلز پارٹی کے پندرہ سالہ دور میں کی گئی ہولناک کرپشن کے خلاف شروع کیے گئے پروگرام روک دیے ہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اگرچہ آئی ایم ایف کے نزدیک پاکستان کی بدحالی کی بنیادی وجہ کرپشن ہے لیکن ہماری مقتدرہ کے نزدیک کرپشن کوئی مسئلہ نہیں ہے اس لیے کہ اس کی بالواسطہ حکمرانی کے لیے کرپٹ سیاستدان ہی اس کی بیساکھی بنتے ہیں۔

لیجیے صاحب شیخ رشید کے حوالے سے آصف زرداری کا ذکر آیا تو شیطان کی آنت کی طرح طول کھینچتا چلا گیا۔ اب ہم پھر شیخ رشید اور ان کی لال حویلی کی طرف آتے ہیں۔ شیخ رشید نے مقتدرہ کی خوشامد کرکے لال حویلی واپس حاصل تو کرلی ہے لیکن خطرہ ابھی تک ان کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ انہوں نے 9 مئی کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار تو کیا ہے اور ان کی مذمت بھی کی ہے لیکن انہوں نے ابھی تک عمران خان پر تبرا نہیں بھیجا کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو عمران خان کا ووٹر ان سے دور ہوجائے گا اور وہ راولپنڈی سے قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں ہار جائیں گے جبکہ مقتدرہ کی خواہش ہے کہ وہ کھل کر عمران خان پر لعنت بھیجیں اور اسے گالیاں دیں۔ شیخ صاحب اس وقت مشکل میں ہیں ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جارہے ہیں اور انہیں عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں چلّے کی دھمکی بھی دی جارہی ہے۔ پچھلا ’’چلّہ‘‘ تو وہ کسی نہ کسی طرح برداشت کرگئے تھے لیکن اب دوسرا چلہ برداشت کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لال حویلی پھر ان کے ہاتھ سے نکل گئی تو وہ دوبارہ اسے حاصل نہ کرپائیں گے۔ کہا جارہا ہے کہ انہیں اپنی عزت بچانے کے لیے عمران خان کی عزت سے کھیلنا ہی پڑے گا اور اپنی دونوں نشستوں سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔ غالب نے سچ کہا ہے؎

جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں!

شیخ رشید بڑے ٹھسے سے عمران خان کی گلی میں گئے تھے اب بھگتیں۔