ـ20 ہزار شہدائے غزہ اور موساد کا ناکام آپریشن؟

662

22نومبر کو صبح 10بجے جنگ بندی میں 20 گھنٹے کی تاخیر وجہ یہ تھی کہ اسرائیلی وزیر ِ اعظم نیتن یاہو نے پر یس کانفرنس میں موساد کو حکم دیا تھا کہ ’’ساری دنیا میں حماس کے رہنماؤں اور اس کے کارکنان کو ہلاک کر دے‘‘ جس کی وجہ سے جنگ بندی نہیں ہو سکی حماس سے جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ اس سلسلے میں اسرائیلی ٹی وی چینل نے انکشاف کیا کہ ہے کہ ’’موساد‘‘ کے سربراہ نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ سے ملاقات میں کہا کہ فوری طور پر ایسا نہیں ہو گا۔ 24 نومبر کو جنگ بندی سے ایک طرف فلسطینیوں کو سکون کے چند لمحات میسر ہوئے ہیں تو دوسری جانب ان کے دکھ اور غم ہزار گنا ہوگئے۔ غزہ میں جنگ بندی کے بعد فلسطینی اپنے گھروںکی طرف دوڑے ان کو راستے میں اپنے پیاروں، عزیز واقارب اور دوستوں کی لاشوں کے ٹکڑے ملے اور ان کے گھروں کا سارا سامان اور قیمتی اشیا یہودی افواج لوٹ کر لے گئے تھے لیکن ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے لازوال ہمت اور صبر کا مظاہرہ کیا اور اسرائیل کی یہ کوشش کہ فلسطینی اپنے گھروں میں واپس نہ جائیں کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ پورے غزہ میں ہر طرف فلسطینی ہی فلسطینی تھے اور اپنے پیاروں کی شہادت پر اللہ کا شکر ادا کرنے میں مصروف نظر آرہے تھے اور اس عزم کا اظہار کر رہے تھے۔

ہمیں یقین ہے ڈھلے گی اک دن
ستم کی یہ شام اے فلسطیں
ہر ایک مظلوم سن چکا ہے
ہمارا پیغام اے فلسطیں
ستم گروں کا نشاں نہ ہوگا
ہمارا خوں رائیگاں نہ ہوگا
وطن سے جب تک مٹا نہ لیں گے
نشان ہم سامراجیوں کا
قسم محمدؐ کی عظمتوں کی
نہ لیں گے آرام اے فلسطیں! اے فلسطیں!

یورپی یونین کی یورو میڈیٹرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے 25 نومبر 2023 کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ میں صہیونی حکومت کے جرائم کے تازہ ترین رپورٹ تیاری کے دوران ہلاکتوں کے اعدادو شمار بہت ہی خوفناک ہیں۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے خلاف غاصب صہیونی حکومت کے جاری حملوں کے آغاز سے لے کر اب تک بیس ہزار اکتیس فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ تنظیم نے مزید کہا ہے کہ ان شہداء میں 8174 بچے ہیں۔ یورو میڈیٹرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے بتایا کہ ہماری ٹیم نے فلسطینی شہداء کے تازہ ترین اعداد و شمار شائع کیے ہیں اور ان اعداد و شمار میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ان کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں۔

یورو میڈیٹرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے یہ بھی بتایا ہے کہ یورپی یونین کو اس رپورٹ پر بہت تشویش ہے کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الشفا اسپتال کے طبی عملے کے سینئر ملازمین کے اسرائیل فوجوں کی جانب سے اغوا میں، عالمی ادارہ صحت نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اسرائیلی فوج کو سہولت فراہم کی ہے۔ یورو میڈیٹرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے غزہ کی پٹی پر صہیونی حکومت کے ہمہ گیر حملوں کی مزید تفصیلات اور زخمیوں کی تعداد کا اعلان نہیں کیا ہے۔ لیکن اس بات کا خدشہ ہے ہلاکتوں کی تعداد میں مزید 30 سے 40 فی صد اضافہ ہوسکتا ہے۔ اب اس بات کے جائزے کی بھی ضرورت ہے کہ اسرائیل وزیر ِ اعظم نیتن یاہو کی پر یس کانفرنس میں موساد کو حکم دیا تھا کہ ’’ساری دنیا میں حماس کے رہنماؤں اور اس کے کارکنان کو موساد ہلاک کر دے‘‘ موساد نے اس سلسلے میں اب تک جس جگہ بھی کارروائی میں کامیابی حاصل کی ہے اس کی وجہ موساد کی مہارت نہیں بلکہ جن، ممالک میں ایسی کارروائی ہوئی ہے وہاں کی حکومت ان کی مددگار رہی ہے۔

گزرے دنوں میں سب بڑا آپریشن ملائیشیا میں کیا گیا تھا جہاں صہیونی تجزیہ کاروں کے مطابق ملائیشیا میں موساد کا ناکام آپریشن سب سے بڑی بدنامی ہے۔ سحر نیوز مائیشیا اور صبا نیوز ترکی کا کہنا ہے کہ ’’ایک ریڈیو انٹرویو میں صہیونی صحافی اور تجزیہ نگار نے ملائیشیا میں موساد کی ناکام کارروائی کو حالیہ برسوں میں صہیونی جاسوس تنظیم کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیے دیا۔ اس کے بارے مزید اخبارات کا حوالے دینے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ موساد کے اس آپریشن کا مقصد کیا تھا جس کی وجہ آج تک ترکی میں موساد کے لوگوں کی گرفتاری جاری ہیں۔ صبا نیوز کے مطابق موساد کا یہ آپریشن ایک نوجوان ’’عمر اے‘‘ کے خلاف تھا جس کو موساد کے اہلکار اغوا کرکے کوالالمپور سے 15000 کلو میٹر دور ایک گھر میں تشدد کر رہے تھے اس پر الزام تھا کہ اس نوجوان نے اسرائیلی ’’آئرن ڈوم‘‘ (اسرائیل کی دفاعی چھتری) کو بے کار کیا اور بڑے بڑے اکائونٹ کو ہیکنگ کرکے بھاری رقوم نکالی جس سے حماس کو مالی امد اد فراہم کی گئی تھی۔ ترکی سے اس گھر کی لوکیشن ملا ئیشیا بھیجی گئی جہاں ’’ملائیشیا‘‘ کی فوج نے چھاپا مارا اور نوجوان کو بازیاب اور موساد کے 13افراد کو فوری اور اس کے بعد سے اب تک کی اطلاعات کے مطابق 54افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ترکی کی حکومت نے اس سلسلے میں مزید کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے۔

فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق صہیونی صحافی اور تجزیہ نگار ’’باراک راوید‘‘ نے کوالالمپور میں موساد کے ناکام آپریشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھاکہ ملائیشیا میں جو کچھ ہوا تھا، وہ حالیہ برسوں میں موساد کی سب سے بڑی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ خبر رساں ایجنسی ’’شہاب‘‘ کے مطابق راوید نے ایک ریڈیو انٹرویو میں اس رپورٹ کے بارے میں کہا کہ اگر یہ واقعہ سچا ہے تو یہ بہت شرمناک بات ہے 2010 کے بعد سے حالیہ دنوں میں موساد کی سب سے بڑی تشہیر شدہ ناکامی ہے۔

اسرائیل اس سب کے بارے میں یہ کہہ رہا تھا کہ مقامی ملائیشیا پر بھروسا کرنے کی وجہ سے یہ ناکامی ہوئی ہے، رپورٹ کے مطابق اس فلسطینی کو اغوا کرنے کی کارروائی موساد نے کی تھی اور اس کارروائی کو انجام دینے کے لیے اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے ملائیشیا کے کرائے کے ایجنٹوں کی مدد لی تھی۔ ملائیشیا کے ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹوں میں بتایا تھا کہ ملائیشیا کی انٹیلی جنس فورسز اغوا کاروں کے ٹھکانے تک پہنچنے میں اس لیے کامیاب ہوئیں کہ اس کے پاس درست لوکیشن موجود تھی۔ موساد اہلکار فلسطینی کارکن سے اسرائیلی تل ابیب سے ویڈیو لنک کے ذریعے حماس کی فوجی شاخ القسام بریگیڈ کے ساتھ اس کے روابطے کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے تھے۔

اسرائیل وزیر ِ اعظم نیتن یاہو کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اس وقت دنیا کے مختلف اسلامی حکومتوں کے پاس نام نہاد سُپر پاور یہودیوں سے زیادہ قابلیت اور صلاحیت ہے اور وہ قاتلوں کو پکڑنے کی مہارت بھی رکھتے ہیں۔ موساد ان باتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ اسی لیے وہ اس بات کا خیال رکھے گی کہ دنیا کا امن تباہ کر نے سے اسرائیل کا بھی نقصان ہوگا۔