عدالت عظمیٰ نظیر قائم کرے

523

عدالت عظمیٰ میں آج کل ایک تاریخی مقدمہ زیر سماعت ہے یہ مقدمہ ایک ہی معاملے اور شخص سے متعلق دو الگ الگ انداز میں زیر سماعت ہے۔ ایک جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے ٹرائل کے لیے قائم خصوصی عدالت کو کالعدم کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت ہے اور دوسری سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت سے جنرل پرویز کو ملنے والی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف جنرل پرویز کی اپیل ہے جس کی سماعت 10 جنوری تک ملتوی کردی گئی ہے۔ جنرل پرویز اس دنیا سے جاچکے مارشل لاء ختم ہوچکا لیکن اس کیس میں سب کچھ گزر جانے کے باوجود بھی کئی چیزیں درست کرنے کے لیے اس کا فیصلہ اور بہ نظر غائر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس سماعت کے دوران چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ احتساب سب کا کریں۔ مارشل لائوں کو جواز دینے والے ججز کی تصاویر کمرہ عدالت میں ہونی چاہئیں۔ یہ دراصل اس رویے کی حوصلہ شکنی ہوگی جو طاقتور کے سامنے جھکنے کا رویہ ہے۔ ۹۰ دن کی مہلت اور مارشل کے تمام اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے جیسے قدامات کے لیے راستہ بند کرنے کا سبب بنیں گے۔ چیف جسٹس نے آئین توڑنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے کہا کہ غاصب کو سزا ملے یا نہ ملے پھر بھی یہ تسلیم کریں کہ ماضی میں جو ہوا وہ غلط تھا۔ انہوں نے آمروں کے ساتھ کھڑے صحافیوں کو بھی برابر کا ذمہ دار قرار دیا۔ دوران سماعت ریمارکس تو بڑے زوردار دیئے گئے ہیں جو معمول ہے لیکن دیکھنا یہی ہے کہ اس نازک اور حساس معاملے میں عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے اب جنرل پرویز مشرف کو کوئی نئی سزا نہیں دی جاسکتی اور ان کے اقدام کو جواز بخشنے والے ججوں کو بھی اس طرح عدالت میں نہیں لایا جاسکتا کہ ان پر اس معاونت کا الزام ہے۔ لیکن اگر عدالت ایک مرتبہ نظیر قائم کردیتی ہے کہ آئندہ کوئی بھی آئین شکنی کرے گا تو وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوگا اور اس کو جواز بخشنے والے ججوں کے لیے اگرچہ یہ سزا کم ہے لیکن پھر بھی ایک مثال ہوگی کہ ان کی تصاویر اس عنوان کے ساتھ عدالت عظمیٰ میں آویزاں کی جائیں کہ دیکھو یہی لوگ جو مارشل لائوں کو جواز بخشتے تھے۔ چیف جسٹس نے صحافیوں کا ذکر بھی کیا ہے ان کو بھی سزا ہونی چاہئے۔ غیر آئینی اقدامات کو جواز بخشنے اس کا ساتھ دینے والے ہر فرد اور ادارے کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے اس کے ساتھ ساتھ عدالت کو یہ میکنزم بھی بنانا پڑے گا اگر کوئی سویلین حکمران غیر قانونی اقدام کی مزاحمت کرے تو عدالت اسے تحفظ دے گی جس طرح آئین توڑنا سنگین غداری ہے اسی طرح اس کو جواز بخشنے والے ججز بھی سنگین غداری کے مرتکب قرار پائیں گے۔ البتہ صحافیوں، جن کا کام حق کی آواز بلند کرنا ہے ان کے تحفظ کے لیے عدالت کیا کرے گی۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آواز بلند کرنے پر تو صحافی اغواء اور قتل ہوئے۔ روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر کو اغواء کرکے ذہنی تشدد کیا گیا درجنوں رپورٹرز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مارشل لاء کی حمایت کرنے والے صحافی تو موجیں کرتے رہے مخالفت کرنے والے سزا بھگتتے رہے۔ عدالت عظمیٰ مارشل لاء کے حامی صحافیوں کا بھی محاسبہ کرے اور مارشل لاء کا جبر بھگتنے والے صحافیوں کی بھی داد رسی کرے۔ ابھی تو سماعتوں اور ریمارکس تک معاملات ہیں اگر اس مقدمے میں ٹھوس نظیر قائم کردی گئی تو ملک میں آئندہ کم از کم براہ راست فوجی مداخلت کا راستہ تو بند ہوجائے گا۔ اس کے بعد ایسے سیاستدانوں کو ٹھیک کرنا زیادہ آسان ہوگا جو اپنے اقتدار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو آئین توڑنے کی دعوت دیتے ہیں۔