ٹریفک سگنل کی مرمت اور بھیک کا بزنس

765

ایک دلچسپ خبر ملاحظہ فرمائیے:

لاہور کی فردوس مارکیٹ کے ساتھ خراب ٹریفک سگنل کو بھکاریوں نے خود پیسے جمع کرکے ٹھیک کروایا۔ بھکاریوں کا کہنا تھاکہ سگنل خراب ہونے کی وجہ سے گاڑیاں رکتی نہیں تھیں جس کی وجہ سے ان کا ’’بھیک کا بزنس‘‘ تباہ ہورہا تھا۔

اس خبر کو وسیع تناظر میں دیکھیں تو ہمارے طرز حکمرانی کی عکاسی گمان ہوتی ہے۔ معیشت کو چلانے کی ہماری ٹیکنیک اس خبر میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان کی معیشت سے دلچسپی رکھنے ہر فرد کو اس خبر میں اپنی حکومتوں کے طرزعمل کی جھلک نظر آئے گی۔ ہماری حکومتیں پہلے اپنے خراب طرز حکمرانی، گوگوں اور گوگیوں کی بدعنوانیوں اور کرپشن میں حصہ داربن کر، ملک اور بیرون ملک دولت کے پہاڑ اور جائدادیں بناکر معیشت کے اشارے اور سگنلز خراب کرتی ہیں۔ پھر عوام پر پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے، بے حدوحساب مہنگائی مسلط کرکے پیسے جمع کرکے ا س ٹریفک سگنل کو ٹھیک کرواتی ہیں جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، تاکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر قرض دینے والوں کی گاڑیاں اس سگنل پررک سکیں اور بھیک کی طرح گڑ گڑانے کے بعد قرض ملنے کا سلسلہ شروع ہوسکے۔

اکیسویں صدی کے احاطے میں نت نئے امکانات کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ اجتماعی محنت، منصوبہ بندی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ کارنامے انجام دیے جارہے ہیں کہ صدیوں کی ترقی کا سفر برسوں اور مہینوں میں طے ہورہا ہے۔ فلکیات سے لے کر حیاتیات اور طبیعات سے لے کر ارضیات تک کمانیں سنبھالے دنیا ترقی شکار کررہی ہے۔ گھڑ سواروں کے لشکر اپنے عوام کی ترقی کے لیے لوازمات مہیا کرنے میں مصروف ہیں لیکن ہمارے لشکروں کے گھوڑے صرف لید کرنے میں مصروف ہیں۔ اس لید میں کروڑوں عوام حشرات کی طرح رینگ رہے ہیں۔ کوڑا کرکٹ جمع کرکے پیٹ بھررہے ہیں۔ جب کہ حکمران پائیدار ترقی اور بہبود کے منصوبے بنانے کی بجائے ٹریفک سگنل ٹھیک کرواکر بھیک مانگنے کے نئے طریقے اور بہانے تراشنے میں مصروف ہیں۔

ٹریفک سگنل درست کروانے کا مقصد اجتماعی فلاح اور بقا نہیں ہے بلکہ یہاں سے حاصل ہونے والی بھیک سرمایہ داروں، صنعت کاروں، بینکاروں اور سیاسی اور فوجی اشرافیہ کے مفادات، ذاتی جائدادوں اور منافعوں میں اضافوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس طرز حکومت میں پہلے فوج اور عدلیہ مل کر بد کرداروں پر محنت کرتی ہیں انہیں اقتدار میں لاتی ہیں۔ زرداروں، شریفوں، عمرانوں، گوگیوں اور بزداروں کو کرپشن کے مواقع ارزاں کرتی ہیں، ان کی بدکرداریوں کی طرف پیٹھ کیے رکھتی ہیں۔ برسوں اقتدار کی طوالت انجوائے کرکے اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کرکے جب یہ اصل مقتدرہ ایکسپوز ہونے لگتی ہے تو اپنے بدکرداروںکے نیچے سے قالین کھینچ کر ان کے کرتوتوں کے قصوں میں قوم کو ایسے الجھاتی ہے کہ انہیں لانے والے جنرلوں اور ججوں کی آئینی اور اخلاقی حیثیت کی طرف ذہن ہی نہیں جاتا۔

اس کھیل میں صرف ججوں اور جرنیلوں کو الزام دینا درست نہیں وہ سیاست دان بھی برابر کے شریک ہیں جو سرخی اور سرمہ لگائے سگنلوں پر کھڑے رہتے ہیں کہ کوئی آئے اور وہ اس کے ہاتھوں شکار ہو جائیں۔ لطف یہ کہ شکار خود چل کر شکاریوں کی طرف جاتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ شکاریوں کے منظور نظر ہیں۔ یہ شکار اقتدار میں آکر ترقی کے گھوڑوں کی چاروں ٹانگیں اس مہارت سے کاٹتے ہیں کہ قوم ان کے نیچے دب کررہ جاتی ہے۔ جس طرح بجلی کی خریداری کا ظالمانہ معاہدہ ہمارے یہاں آئی پی پیز سے کیا گیا ہے دنیا میں اس کی مثال کہیں ملتی ہے۔ کہ بجلی کی پیداوار نہیں بھی ہو تو بھی ادائیگی کرنی ہے اور وہ بھی ڈالروں میں۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کی جو واردات 75برسوں میں ممکن نہیں ہوسکی وہ پونے چارسال میں کرکے دکھادی گئی اور کسی نے ہاتھ نہیں روکا۔

سرکار عالی مرتبتؐ کے ہاں کئی دن فاقہ رہتا تھا۔ کبھی آپؐ نے سوچا کہ کیوں؟ جب کہ سیدنا عثمان غنیؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ جیسے اربوں کھربوں پتی جو سیکڑوں مال تجارت سے لدے اونٹ امت کے سپرد کرنے کے لیے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے جو سیدالمرسلینؐ پر جان اور مال نچھاورکرنے کی خواہش میں تڑپتے رہتے تھے ان کی آپ کے قرب میں موجودگی کے باوجود آپؐ اور آپ کے اہل خانہ کے گھروں میں کچھ کھانے کو نہ ہو، کئی کئی دن آگ نہ جلے! آپؐ ان اصحاب سے مدد طلب کرسکتے تھے، قرض لے سکتے تھے، کسی کی ذمہ داری لگا سکتے تھے کہ وہ ان کے کچن کے معاملات دیکھ لے اور پھر آپؐ خود کیوں؟ صحابہ کرام کو ازخود ایسا کرنا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کائنات کے ان حساس ترین نفوس نے یہ راہ کیوں اختیار نہیں کی۔ وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام رسالت مآبؐ کے مزاج شناس تھے وہ جانتے تھے کہ ایسی امداد آپؐ کے مزاج کے خلاف اور گرانئی طبع کا باعث ہوگی۔ ایسے اعمال اسلام کی فطرت میں نہیں جو انسان کی خودی اور عزت نفس کی پامالی کا سبب بنیں۔ جن سے ایک انسان کی نظر دوسرے کے سامنے نیچی ہو وہ اس کا زیر بار احسان ہو۔ اندازہ کیجیے ایسا دین جو امداد اور قرض کو گوارا نہ کرتا ہو بھیک اس کے نزدیک کیسا مکروہ عمل ہوگا؟ لیکن ہم ہیں کہ بھکاریوں کی قوم بنتے جارہے ہیں۔

ہمارے یہاں پہلے ایک عبدالستار ایدھی تھا اب انسانیت کی خدمت کے نام پر سیکڑوں ادارے وجود میں آچکے ہیں۔ ہر چوک اور شاہراہ پر کوئی نہ کوئی ادارہ نہ صرف بھوکوں کو کھانا کھلارہا ہے بلکہ اہل خانہ کے لیے گھر لے جانے کی سہولت بھی مہیا کررہا ہے۔ صبح کے وقت جگہ جگہ لب سڑک ناشتے کے مناظر اس کے علاوہ ہیں۔ ہم بھکاریوں کی فوجیں تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ عوام کو روٹی مہیا کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ عوام بھی اس معاملے میں پہلے اتنے حساس رہتے تھے کہ حکومت اس معاملے میں ذرا بھی کوتاہی کرتی، چینی کی قیمت میں پچیس پیسے کا اضافہ کرکے عوام کی دسترس سے دور کرتی لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آجاتے تھے۔ اب کتنی ہی مہنگائی ہوجائے، اشیاء کی قیمتیں کہیں سے کہیں پہنچ جائیں ہر طرف سناٹا رہتا ہے۔ اب بیش تر لوگ امداد اور قرضے لے کر مہنگائی اور قلیل آمدنی کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں یہاں تک کہ اکثریت کا طرز زندگی بنتا جارہا ہے۔ پہلے بڑے بڑے بینک امیروں کو قرض دیا کرتے تھے، اب چھوٹے چھوٹے بینک غریبوں کو چھوٹی چھوٹی رقوم قرض دینے کے لیے ہر گلی کوچے میں موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پر آسان طریقوں سے ڈیجیٹل لون فراہم کرنے والوں کی وہ فراوانی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ یہ فراوانی ظاہر ہے ڈیمانڈ اور سپلائی کی مناسبت سے ہے۔

جگہ جگہ دودو تین وقت بھوکوں کے کھانا کھلانے کے دسترخوان تو کھلے ہیں لیکن لوگوں کو ٹیلرنگ، مکینک، پلمبرنگ، الیکٹریشن، کمپیوٹر اور دیگر فنون مفت سکھانے کا اہتمام نظر نہیں آتا۔ لوگوں کو بھیک میں روٹی دی جارہی ہے لیکن روٹی کے حصول کے رزق حلال تک دسترس کے طریقے نہیں سکھائے جارہے جسے دیکھیں قرض، امداد اور بھیک کے لیے کوشاں ہے۔ ہم بھکاریوں کی قوم بن گئے ہیں۔ حکومت اور عوام کی تگ ودو محض سگنلز ٹھیک کروانے تک محدود ہوکررہ گئی ہے۔ اللہ رحم کرے