ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا بلیک باکس؟؟

931

کیا یہ ایک حیران کن بات نہیں ہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر دانستہ یا نہ دانستہ طور پر تباہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا یا یہ سب کچھ اتفاقاً ہو گیا؟ عالمی عسکری تجزیہ کار ڈاکٹر صائم یوسف نے ساری دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ شہید ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کا بلیک باکس کبھی نہیں ملے گا اس کی وجہ یہ ہے ان کے ہیلی کاپٹر میں بلیک باکس موجود ہی نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کے دورے سے قبل ہی ہیلی کاپٹر کا بلیک باکس منٹینس کے دوران نکال لیا گیا تھا۔

دنیا بھر میں جب بھی کِسی طیارے کا حادثہ ہوتا ہے تو ہم اکثر سنتے ہیں ’’بلیک باکس مِل گیا، بلیک باکس ڈھونڈا جا رہا ہے یا بلیک باکس مِلے گا تو ہی کچھ معلوم ہوسکے گا‘‘۔ لیکن ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر میں یہ سب سے اہم پرزہ موجود ہی نہیں تھا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس اہم پرزے کے نہ ہونے کے بعد بھی ہیلی کاپٹر پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا جواب ہاں اور نہیں میں ہے، اگر بلیک باکس کے سرکٹ کو بائی پاس کر دیا جائے تو پرواز میں رکاوٹ نہیں ہوگی لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کسی بھی جہاز یا ہیلی کاپٹر کو فضاء تک پہنچانا ناممکن ہے۔ اسی لیے ہیلی کاپٹر کا بلیک باکس نہیں مل سکا ہے اور نہ یہ کبھی مل سکے گا۔

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر اللہیان، مشرقی آذربائیجان کے گورنر مالک رحمتی اور دیگر حکام کی ہیلی کاپٹر حادثہ میں المناک موت پر دنیا بھر کے سربراہان ممالک نے اپنے تعزیتی پیغامات میں گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ ابراہیم رئیسی کے خاندان، ایرانی عوام کے غم میں شریک ہونے اور ان کے ساتھ کھڑے رہنے کا یقین دلایا ہے۔ ایران میں ہیلی کاپٹر حادثہ کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ خراب موسم میں آذربائیجان کی طرف جانے کا مشورہ کس کا تھا۔ دوسرے ایران اور آذربائیجان کے لمبے عرصہ سے تعلقات اچھے نہیں چل رہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ میں ایران اسلحہ کی سپلائی میں آرمینیا کی مدد کرتا رہا ہے اور اس اقدام کے خلاف ایرانی آذربائیجانی عوام نے ایرانی حکومت کے خلاف سخت مظاہرہ کیے تھے جس بعد ایران نے آرمینیا کو اسلحے کی سپلائی بند کر دی تھی۔ ایران کی دشمنی سے دفاع کے لیے آذربائیجان نے اسرائیل سے دفاعی معاہدہ بھی کر رکھا ہے۔ آذربائیجان کی اسرائیل سے گہری قربت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں موساد کے چھپے دفاتر موجود ہیں۔ 3 جنوری 2020 کو ایران کے میجر جنرل قاسم سلیمانی بغداد ہوائی اڈے پر ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ ایران اور اس کے آس پاس کی سیاست میں ان کا بڑا نام تھا۔ موساد اور سی آئی اے کے ساتھ اس وقت کے صدر ٹرمپ نے ان کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کی تھی اس پوری صورتحال سے اس بات کا پتا چلتا ہے ایران کا اسرائیل اور امریکا خطے میں نہ ختم ہونے والی جنگ کا ہمیشہ سلسلہ جاری ہے اور اس میں ایران کی اہم شخصیت کو سرِ عام قتل کیا جاتا رہا ہے۔ اس جنگ میں ایران کو ماضی میں بھی بھاری نقصان کا سامنا رہا ہے۔

اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے عالمی سطح پر ایران کی ساکھ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بہت کم وقت میں عالمی لیڈروں میں ان کا شمار ہونے لگا تھا۔ ایران میں اگلے سال صدر کے انتخابات میں یہ بات تسلیم شدہ تھی کہ وہ دوبارہ بلا مقابلہ منتخب ہو جائیں گے۔ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای 88 سال کے ہو چکے ہیں۔ اگر وہ استعفا دیتے ہیں یا خدا نخواستہ گزر جاتے ہیں تو ڈاکٹر رئیسی ان کی جگہ لے سکتے تھے۔ کیونکہ وہ ایران کی مذہبی کونسل کی پہلی پسند تھے۔ حالانکہ علی خامنہ ای کے صاحبزادے بھی اس کے دعویدار ہیں اور چند برسوں سے مختلف مواقع پر اپنے والد سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے اختیارات بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب کسی شخص کا قد بہت بڑا ہو جاتا ہے تو وہ اندرونی و بیرونی طاقتوں کے نشانے پر آ جاتا ہے۔ پھر اسرائیل- فلسطین کی جنگ میں حماس کی مدد کرنے کا بھی ایران پر الزام ہے۔ پن پوائنٹ ٹارگیٹ کرنے میں اسرائیل کو مہارت حاصل ہے۔ جس طرح اس نے حماس، حزب اللہ کے لڑاکوں کو ٹارگیٹ کیا ہے۔ اس سے اس بات کا امکان ہے کہ رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہو۔ یا پھر اندر کے کسی شخص کو استعمال کر کے ہیلی کاپٹر میں کچھ رکھوا دیا گیا ہو۔ جیسے جنرل ضیاء الحق کے جہاز میں رکھوایا گیا تھا جس کے امکانا ت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ابھی کچھ دن قبل ایران میں کئی بم دھماکے ہوئے، جن کی تحقیقات جاری ہے۔ ایران کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے ہیں۔ اس کے باوجود امریکا اور اسرائیل ان پر براہ راست حملے کی غلطی نہیں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کا پورے خطہ میں برا اثر پڑنے کے خدشات ہیں لیکن اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ہیلی کاپٹر کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے حادثہ کا شکار ہوا ہے۔ ایران کی حکومت کا ابھی کوئی بھی سرکاری بیان نہیں آیا ہے۔ ثبوت کے بغیر ہیلی کاپٹر سانحہ کو سازش کہنا مناسب نہیں ہے۔ لیکن ایرانی حکومت جس قدر جلدی حقیقت منظر ِ عام پر لائے گی اتنی جلد ایران میں صورتحال بہتر ہو گی۔ یہ سب کچھ ایران اور عالم اسلام کے لیے اہم اور ضروری ہے۔

یہ سوال بھی اُٹھایا جارہا ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے بعد ایران کا کیا ہوگا؟ اچھی بات یہ ہے کہ وہاں کی جمہوریت کافی بالغ ہے۔ کسی شخص کے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تبھی نائب صدر نے صدر کی ذمے داری سنبھال لی۔ پوری دنیا سے آنے والے تعزیتی پیغامات کو وصول کر ان کا جواب دیا جا رہا ہے۔ وہاں کی قیادت نے افراد سازی پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد کئی مواقع ایسے آ چکے ہیں جب ان کی پہلی صف کی لیڈر شپ ختم کر دی گئی تھی، لیکن وہ ملک ٹوٹا نہیں۔ بھلے ہی صدر کا عہدہ اہم ہے لیکن ’چیک اینڈ بیلنس‘ یعنی توازن قائم رکھنے والا نظام کافی مضبوط ہے۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ رئیسی کے نہ رہنے سے ایران کی پالیسیاں متاثر ہوں گی۔ وہاں کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بھی اپنے بیان میں اس کا اشارہ دیا ہے۔ مغربی میڈیا نے بھلے ہی ایران کی ایک خاص شبیہ بنا دی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک مستحکم ملک ہے۔ ایران کی لیڈر شپ کافی سلجھی ہوئی ہے۔ یہ کتنا ذمہ دار ملک ہے اس کا احساس اس بات سے ہوتا ہے کہ ایران نے امریکا سے جو جوہری معاہدہ کیا تھا اور جس سے امریکا خود باہر نکل آیا، یہ وہ معاہدہ تھا جس کو سلامتی کونسل کے ممالک کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ نے بھی قبول کیا تھا۔ اس لیے ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کی پالیسیاں کو برقرار رکھنا ایرانی قیادت کا کام ہے جس کو پوری ذمے داری سے ادا کرتی رہے گی۔