سردی، فلسطینی بچے: ترکی اور جرمنی تنازع؟

787

سردی شدید سے شدید تر ہو تی جارہی اور لوگ اپنے بچوں کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر آنے والے وقت کے ساتھ بہتر سے بہتر انتظامات کرنے میں مصروف ہیں۔ اس موقع پر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اپنے بچوں کو نرم و گرم بستر میں سوتا دیکھ کر ایک لمحے کے لیے یہ سوچ لیں کہ بھوکے پیاسے، زخموں سے چور، شہید ماں باپ کے مظلوم مجبور فلسطینی بچے صحرا کی شدید سردی میں کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہیں اور اپنے شہید والدین کو یاد کرکے ساری ساری رات جاگ کر گز ار رہے ہیں اور پوری دنیا میں کوئی ان بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھنے والا نظر نہیں آرہا ہیں۔ شدید سردی میں کھلے آسمان تلے رات گزارنا تو بڑوں کے لیے بھی مشکل ہے لیکن مظلوم فلسطینی بچے رات گزار رہے ہیں بلکہ ان کے ارد گرد اسرئیلی افواج کے بھیڑیے بھی ان کو بری طرح خوفزدہ کر رہے ہیں اور عالم اسلام کا ہر گھر اطمینان و سکون سے ہر دن عید اور ہر رات شب ِ برات منانے میں مصروف ہے۔ بحرِ مردار سے بحرِ عرب اور بحرِ اوقیانوس کے کھربوں لیٹر سمندروں کا پانی فلسطینیوں پر مظالم دیکھ کر اپنے ربّ کے آگے سجدہ ریز ہوکر کہہ رہا ہو گا کہ اے ہمارے ربّ! تجھ سے درخواست ہے تو ہم کو اجازت دے تو سمندر کے کنارے کے اسلامی ممالک سمیت پوری دنیا میں عذاب نوح برپا کر دیں اور فلسطین کو کشتی ِ نوح بنا دیں لیکن اللہ اپنی مرضی کا خود مالک ہے۔ اس بات سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ راتیں طویل تو ہو سکتی ہیں لیکن نہ ختم ہونے والی کبھی بھی نہیں۔
رفتہ رفتہ اسلامی ممالک اور وہاں کے عوام خاموش ہوتے جارہے ہیں لیکن عالمی اخبارات یہ خبر دے رہے ہیں کہ حماس اور اسرائیل کے مابین تنازعے پر اختلافی موقف کے سبب برلن اور انقرہ کے مابین تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔ ترکی حماس کو حریت پسند جبکہ جرمنی ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔ طیب اردوان کے جرمنی کے دورے کو اسرائیل نے رکوانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اردوان نے برلن میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کے دوران جرمن چانسلر اولاف شولس سے معلوم کیا کہ ’’تم بتاؤ کہ توریت میں اور انجیل میں کہاں لکھا ہے یروشلم میں 15لاکھ فلسطینیوں کو مار دیا جائے، جس کا ذکر باربار اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کرتا ہے۔ جس کے جواب میں جرمن چانسلر اولاف شولس نے اردوان کے تبصروں کو ’’مضحکہ خیز‘‘ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل ایک جمہوریت ہے۔ جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے سربراہ جوزف شسٹر نے بھی اردوان پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ’’جرمنی کی سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں اور جرمنی میں یہودیوں کے خلاف اپنے پروپیگنڈے سے نفسیاتی دہشت گردی کو ہوا دی گئی ہے‘‘۔
ترک صدر رجب طیب اردوان کے برلن میں جرمن چانسلر اولاف شولس اور صدر فرانک والٹر اشٹائن مار سے ملاقاتوں کے دوران اس بات پر اختلافات کھل کرسانے آ گئے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر بمباری کا حق ہے کہ نہیں اور حماس دہشت گرد ہیں یا آزادی کے مجاہد جن کے بچوں کو اسرائیل بے دردی سے قتل کر رہا ہے اور ساری دنیا اس قتل میں اسرائیل کو فوج اسلحہ فراہم کر رہی ہے جس میں جرمنی بھی شامل ہے۔ ترک رہنما یہ دورہ ایک ایسے وقت پر کر رہے ہیں، جب ترکی اور جرمنی کے مابین تعلقات اپنی نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعے پر دونوں ممالک کے نقطہ ٔ نظر میں اختلاف ہے۔ اردوان نے اسرائیل پر تنقید اور حماس کا دفاع کرتے ہوئے سخت بیان بازی کا سہارا لیا ہے، جبکہ جرمنی جیسے ترکی کے مغربی اتحادی حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں اور فلسطینی بچوں کے قاتل اسرائیل اور امریکا کی حمایت کر رہے ہیں۔ ترک صدر نے مشرق وسطیٰ کے حالیہ تنازعے میں اسرائیل کے خلاف کھل کر بیانات دیے ہیں، جس پر برلن حکومت ناخوش ہے اردوان نے حال ہی میں انقرہ میں کہا کہ اسرائیل 75 سال سے ’’اس زمین پر ایک ریاست قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو فلسطینی عوام سے چھین لی گئی تھی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی قانونی حیثیت کو اس کے ’’اپنے فاشزم‘‘ کے ذریعے سوالیہ نشان بنایا جا رہا ہے۔
جرمنی کے کچھ عہدیداروں نے موجودہ تنازعے کی وجہ سے ترک رہنما کا دورہ منسوخ کرنے کا مشورہ دیا تھا تاہم جرمن حکومت اس دورے کو آگے بڑھانا چاہتی تھی۔ اپوزیشن کی جماعت سینیٹر رائٹ کرسچن ڈیموکریٹس (سی ڈی یو) نے بھی اسی حکومتی موقف سے اتفاق کیا تھا۔ سی ڈی یو کے رہنما فریڈرک مرز نے کہا کہ ترکی جرمنی کے لیے بہت اہم ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت بند کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جر منی کے لیے سب اہم بات یہ ہے کہ جرمنی میں ترک شہریت رکھنے والے تقریباً 15 لاکھ افراد آباد ہیں۔ ان میں سے دو تہائی نے اس سال کے اوائل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اردوان کو ووٹ دیا تھا، اب انتخابات کو بین الاقوامی مبصرین نے آزاد لیکن غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ اقتصادی لحاظ سے جدوجہد کرنے والا ترکی جرمنی اور یورپی یونین کے ساتھ اچھے کاروباری تعلقات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی یورپی یونین کی طرف بڑھنے والے مہاجرین کے بہاؤ کو روکنے کی کوششوں میں ایک اہم شراکت دار ہے۔
سات سال قبل اردوان نے یورپی یونین کے ساتھ انسانی اسمگلروں کو روکنے اور ان تارکین وطن کو واپس لینے کا معاہدہ کیا تھا، جن کی پناہ کی درخواستیں پڑوسی ملک یونان میں مسترد کر دی تھیں۔ اس کے بدلے میں انقرہ کو ملک میں لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے اربوں یورو ملے۔ یورپی یونین اس پناہ گزین معاہدے کی بحالی کی امید کر رہی ہے۔
حماس اسرائیل جنگ میں امریکا کے ساتھ یورپ بھی ایک فریق بن چکا اور ترکی حماس کو آزادی کے مجاہد کہنے کے باوجو د حماس کا ساتھی نہیں بن سکا اسی لیے امریکا اور یورپ کو یہ امید ہے کہ ترکی مشرق وسطیٰ میں جاری بحران میں ثالث کا کردار بھی ادا کر سکتا ہے، جیسا کہ وہ یوکرین اور روس کے مابین کرتا رہا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازعے نے اس حوالے سے ترکی کی حیثیت کو مزید بلند کر دیا ہے۔ یورپی ممالک کو خوف ہے کہ روس یوکرین جنگ کے بعد مغربی ممالک کی پابندیوں کے جواب میں گیس اور تیل کی سپلائی کو مکمل طور پر منقطع کر دے گا۔ روس کی جانب سے گیس کی سپلائی کی ایک بڑی پائپ لائن میں گیس کی کمی کے اعلان کے بعد یورپی سپلائی کے بند ہونے کے خدشات کی وجہ سے اُس وقت تیل کی قیمتوں میں دوسرے دن بھی اضافہ ہوا ہے۔ برینٹ کروڈ فیوچر کی قیمت 1.14 ڈالر، یا 1.1 فی صد بڑھ کر 106.29 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔ یوکرین اور روس جنگ میں ترکی نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا اس سلسلے میں ترکی نے اپنی پائپ لائن کی مدد سے کچھ سپلائی کی تھی۔ یورپ کو آج بھی عالمی تناظر اور خاص طور پر مغربی اور ایشیائی ممالک سے تعلقات میں بہتری کے لیے ترکی کی ضرورت ہے لیکن عالم اسلام نہ جانے کیوں صرف لوگوں کی ضرورت کو پورا کرنے میں مصروف نظر آتا ہے؟