منصورہ میں ایک شام

635

پچھلا ہفتہ لاہور میں گزرا، اگرچہ تقسیم کے بعد مہاجرین کی اکثریت نے کراچی کا رُخ کرلیا تھا لیکن ہم والدین کے ہمراہ الٰہ آباد سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو ہمارا پہلا پڑائو لاہور ہی تھا اس لیے کہ ہمارے بڑے بھائی ریلوے کیرج فیکٹری لاہور میں ملازم تھے اور قیام پاکستان کے فوراً بعد لاہور آگئے تھے پھر انہوں نے والدین اور بہن بھائیوں کو بھی لاہور بلالیا اور ہم سب لوگ لاہور میں آباد ہوگئے۔ قیام پاکستان کے وقت ہماری عمر چھے سال کے قریب تھی۔ محلے کی مسجد میں عربی قاعدے کے بعد سیپارہ پڑھ رہے تھے کہ لاہور آئے تو بھائی جان نے ریلوے کے پرائمری اسکول میں داخل کرادیا اس طرح حصول تعلیم کا سلسلہ چل نکلا۔ بچپن اور جوانی کا بڑا حصہ لاہور میں گزارا۔ حصول تعلیم کے دوران ہی طبیعت لکھنے کی طرف مائل تھی، لکھنے کے ساتھ غیر نصابی چیزیں پڑھنے کا چسکا پڑا ہوا تھا اس چسکے کو بڑھانے میں محلے کی آنہ لائبریری نے اہم کردار ادا کیا۔ سچی بات ہے کہ ہمیں اسکول جانے کے لیے گھر سے روزانہ ایک آنہ جو ملتا تھا وہ ہم اس لائبریری کی نذر کردیتے تھے اور جو کچھ پڑھتے تھے اس کی نقل میں انٹ شنٹ لکھا کرتے تھے جس کا چھپوانا کارے دارد تھا۔ تاہم کبھی کبھار کوئی تحریر چھپ بھی جاتی تھی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد سنجیدہ مضمون نگاری کا آغاز ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ سے ہوا، پھر اس شغل کو بطور کیریئر اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سلسلے میں ہفت روزہ ایشیا کے مدیر ملک نصراللہ عزیز سے رابطہ کیا تو انہوں نے فوراً انٹرویو کے لیے بلایا اور ہماری پوری طرح جانچ کرنے کے بعد بطور نائب مدیر ’’ایشیا‘‘ میں ہمارا تقرر کردیا۔ ایشیا جماعت اسلامی کا ترجمان جریدہ تھا اس طرح جماعت اسلامی سے بھی ہمارا تعلق قائم ہوگیا۔

ایشیا کی پیشہ ورانہ مصروفیت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی عصری مجالس کی رپورٹنگ بھی شامل تھی۔ 5 اے زیدار پارک اچھرہ میں سید مودودی اپنے اہل خانہ سمیت رہائش بھی رکھتے تھے اور اس کوٹھی کے احاطے میں جماعت اسلامی کے مرکزی دفاتر بھی تھے۔ یوں اس کوٹھی میں ہر وقت رونق لگی رہتی تھی۔ یہ انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کا ذکر ہے جب سید مودودیؒ ہی امیر جماعت تھے اور آپ سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا ایک ہجوم کوٹھی میں جمع رہتا تھا۔ آپ نے ان لوگوں سے ملاقات کے لیے عصر کے بعد کا وقت مقرر کررکھا تھا۔ سید صاحب نماز عصر کے لیے اپنے دفتر سے باہر تشریف لاتے، کوٹھی کے سبزہ زار میں صفیں بچھادی جاتیں۔ اذان کے بعد کچھ وقفہ دے کر جماعت کھڑی ہوجاتی۔ آپ امامت کا فریضہ انجام دیتے، نماز ختم ہونے کے بعد آپ پھر کچھ دیر کے لیے اندر تشریف لے جاتے، اتنے میں صفیں سمیٹ دی جاتیں اور ان کی جگہ دو رویہ کرسیاں لگادی جاتیں اور مغربی کنارے پر درمیان میں ایک آرام کرسی اور میز رکھ دی جاتی۔ پھر سید صاحب ایک ہاتھ میں تمباکو سپاری کا بٹوا اور دوسرے ہاتھ میں پان کی ڈبیا تھامے اپنے کمرے سے نمودار ہوتے اور چھوٹے چھوٹے قدم چلتے ہوئے آرام کرسی پر بیٹھ جاتے اور پان کے لوازمات میز پر رکھ دیے جاتے۔ پھر ملاقاتی بھی کرسیوں پر بیٹھ جاتے اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اس عصری مجلس میں ہر خاص و عام کو شرکت کی اجازت تھی اور سوال کرنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ سید صاحب ہر سوال کا نہایت مختصر اور جامع جواب دیتے اور سوال کرنے والا مطمئن ہوجاتا تھا۔ اس زمانے میں ٹیپ ریکارڈر اگرچہ آگیا تھا لیکن اتنا عام نہیں ہوا تھا اور عصری مجلس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اپنی یادداشت پر زیادہ بھروسا کرنا پڑتا تھا۔ بعض اوقات غلطی بھی ہوجاتی تھی لیکن سید صاحب ان باتوں سے بے نیاز تھے۔ مرکز جماعت منصورہ کا سنگ بنیاد اگرچہ سید مودودیؒ نے اپنے ہاتھوں سے رکھا تھا اور راقم الحروف کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ اس تقریب میں شریک تھا لیکن جب منصورہ تعمیر اور آباد ہوگیا اور آپ سے منصورہ میں رہائش اختیار کرنے کی درخواست کی گئی تو آپ 5 اے زیلدار پارک چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ خرابی صحت کی بنا پر ایک مدت ہوئی جماعت کی ذمے داریوں سے رضا کارانہ طور پر سبکدوش ہوچکے تھے اور اب جماعت اسلامی پر مسلط نہیں رہنا چاہتے تھے۔ بہرکیف وجہ کچھ بھی ہو، سید مودودیؒ منصورہ میں رہائش پزیر نہیں ہوئے اور اسی سبزہ زار میں مدفون ہوئے جہاں آپ کی عصری مجالس برپا ہوا کرتی تھیں۔

منصورہ سے ہمارا تعلق اس کے اوّلین دور سے ہے اگرچہ ہم بھی ایک قومی اخبار سے وابستہ ہو کر لاہور سے راولپنڈی، اسلام آباد منتقل ہوگئے تھے لیکن لاہور آنا جانا لگا رہتا تھا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بعد میاں طفیل محمد کا زمانہ دیکھا میاں صاحب صحیح معنوں میں دنیا سے بے نیاز ایک درویش صفت انسان تھے۔ وہ بھی سید مودودیؒ کی روایت کی پیروی کرتے ہوئے خرابی صحت کی بنیاد پر امارت سے سبکدوش ہوئے تو ارکان جماعت نے قاضی حسین احمد کو امیر جماعت منتخب کرلیا۔ قاضی صاحب کا دور بہت ہنگامہ خیز تھا انہوں نے جماعت اسلامی کو ایک عوامی جماعت بنانے کے لیے کئی اہم تجربات کیے جن کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے اور عوام خاص طور پر نوجوانوں میں جماعت اور اس کی قیادت کی مقبولیت میں اضافہ ہوا لیکن جماعت کے اندر اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے اور جماعت کے ایک اہم رہنما ادیب، شاعر اور دانشور محترم نعیم صدیقی نے اختلاف کرتے ہوئے جماعت اسلامی سے علاحدگی اختیار کرکے اپنی تنظیم بنالی لیکن یہ تنظیم دو قدم بھی نہ چل سکی اور ثابت ہوا کہ جماعت اسلامی ایک جمہوری جماعت ہے اس کے اندر رہ کر اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن نظم کا تقاضا یہ ہے کہ اجتماعی قیادت (مجلس شوریٰ) جب کوئی فیصلہ کرلے تو اس کی پابندی کی جائے۔ بہرکیف جماعت اسلامی سے نعیم صدیقی کی علاحدگی کے بعد اکابرین جماعت کا ان سے احترام کا رشتہ برقرار رہا اور ان کی علالت کے زمانے میں ان کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی گئی۔

کئی سال بعد ایک برخوردار کی شادی کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا تو وقت نکال کر منصورہ میں بھی حاضری دی اور ایک شام وہاں گزارنے کا اتفاق ہوا۔ اب وہ منصورہ تو نہیں جو پچاس سال پہلے ہوا کرتا تھا لیکن اب بھی کچھ پرانے چہرے اور دیرینہ رفیق موجود ہیں۔ ہم اپنے بھتیجے کاشف عزیز کے ہمراہ منصورہ پہنچے تو ظہر ہوچکی تھی، نماز جامع مسجد منصورہ میں ادا کی، پتا چلا ظہر سے عصر تک آرام کا وقفہ ہوتا ہے پھر عصر کے بعد دفاتر کھلتے ہیں اور جماعت کے ذمے داران موجود ہوں تو ان سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ البتہ ظہر کے بعد ماہنامہ ترجمان القرآن کا دفتر کھلا رہتا ہے،

خرم مراد مرحوم اور مسلم سجاد مرحوم کے بعد اس جریدے کی امارت پروفیسر خورشید احمد کے سپرد ہے جو ان دنوں برمنگھم میں بستر علالت پر ہیں اور پرچے کے سارے ادارتی امور سلیم منصور خالد نبھارہے ہیں۔ ترجمان القرآن کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوگئی۔ یہ ان سے ہماری پہلی ملاقات تھی، بہت خوش ہوئے اور نہایت جذباتی انداز میں کہنے لگے ’’میں سوچتا تھا کہ متین فکری سے میری ملاقات کبھی ہو بھی سکے گی یا نہیں۔ اللہ نے بڑا کرم کیا آپ خود تشریف لے آئے‘‘ پھر ان سے گفتگو کا سلسلہ چل نکلا، انہوں نے بتایا کہ پروفیسر خورشید صاحب بہت بیمار ہیں لکھنا پڑھنا اب ان کے لیے دشوار ہوگیا ہے۔ وہ ’’اشارات‘‘ لکھ کر انہیں بھیج دیتے ہیں پھر ان کی اجازت سے ان کے نام سے وہ شائع ہوجاتے ہیں۔ خالد صاحب کہنے لگے ’’آپ نے ایک ہی موضوع پر بہت سی تحریریں لکھی ہیں اگر آپ وہ تحریریں مجھے بھیج دیں تو میں ان کی تلخیص کرکے انہیں شائع کردوں گا۔ ہم نے کہا ’’یہ کام بہت مشکل ہے ہمارے پاس ان تحریروں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے‘‘ ابھی چائے پی رہے تھے کہ عصر کی اذان ہوگئی۔

نماز عصر کے لیے مسجد پہنچے تو دیرینہ رفیق حافظ ادریس سے ملاقات ہوگئی۔ نماز کے بعد کہنے لگے ’’چلیے دفتر میں بیٹھتے ہیں‘‘۔ جامع مسجد کے سامنے مرکزی دفاتر واقع ہیں۔ زیادہ تر مقفل تھے۔ حافظ صاحب نے اپنا دفتر کھولا اور ہم تین آدمی دفتر میں داخل ہوگئے۔ حافظ صاحب نے بیٹھتے ہی چائے اور بسکٹ بھی منگا لیے اور چائے کی چسکیوں میں گفتگو ہونے لگی، ہم نے ہم دم دیرینہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا حال احوال پوچھا، حافظ صاحب بولے ’’انہیں بھی یہیں بلالیتے ہیں‘‘ پھر ٹیلی فون کا ڈائیل گھمایا اور ہاشمی صاحب سے مخاطب ہوئے ’’متین فکری صاحب آئے ہوئے ہیں اور آپ کو یاد کررہے ہیں‘‘ جب تک ہاشمی صاحب آتے، حافظ ادریس صاحب نے اپنی کتابوں سے ہمیں نوازا اور ہمارے بھتیجے نے موبائل سے اس کی تصویریں اتار لیں۔ اتنے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی چھڑی ٹیکتے ہوئے تشریف لے آئے۔ انہیں دیکھا تو ان کی بھرپور جوانی یاد آگئی۔ کیسے جوان رعنا ہوا کرتے تھے ہم سے کئی سال چھوٹے ہیں ہم تراسی سال کی عمر میں بھی بھلے چنگے ہیں لیکن ان کی صحت بہت کمزور ہوگئی ہے چھڑی کے سہارے چلتے ہیں آواز میں بھی وہ طنطنہ نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر کہنے لگے ’’میں آپ کے لیے کتابیں لے کر آتا ہوں‘‘ ہاشمی صاحب گھر واپس ہوئے اور کتابیں لے کر آئے تو مغرب کی اذان ہورہی تھی۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اقبالیات پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبال کی زندگی، ان کی شاعری، ان کے فکر و فن اور ان کے نظریات کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کرکے اس حاصل مطالعہ کو نہایت مبسوط انداز میں پیش کیا ہے۔ اس طرح اقبالیات پر ان کی کتابیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی اپنی خودنوشت ’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں ہاشمی صاحب کے ساتھ خصوصی ممنونیت کا اظہار کیا ہے۔ بہرکیف ہاشمی صاحب سے ملاقات بہت خوشگوار رہی۔

منصورہ کی یہ شام یاد رہے گی البتہ وہ دوست جو بچھڑ گئے وہ بہت یاد آئے خاص طور پر صفدر چودھری مرحوم جن کی شخصیت سراپا اخلاص، سراپا انکسار اور سراپا محبت تھی۔

موت سے کس کو رست گاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے!