میں کیا کرسکتا ہوں؟

399

میں کر ہی کیا سکتا ہوں؟
میں تو محض ایک فرد ہوں
یہ بات آج دو ارب کی آبادی رکھنے والے مسلمانوں کا ہر فرد سوچ رہا ہے کہ میں کیا کرسکتا ہوں؟ اور میں کیا ایسا کروں کہ وہ فلسطینیوں کے لیے حقیقی معنوں میں فائدے مند ہو۔ میں تو اتنی دور ہوں۔ آخر میں کر ہی کیا سکتا ہوں؟ اس سوال کے جواب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ غزہ کی صورت حال کیا ہے؟ وہاں آبادیاں کی آبادیاں بمباری کے ذریعے تہس نہس کردی گئیں، اکتوبر کے پہلے ہفتے تک 13 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں 4 ہزار سے زیادہ بچے ہیں۔ اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری کی گئی، فاسفورس بم پھینکے گئے، ٹنوں کے حساب سے بارود برسایا گیا، پانی کے ذخیروں کو نشانہ بنایا گیا، بجلی اور انٹرنیٹ بند کردیا، اسپتالوں سے مریضوں کو نکال کر سڑکوں پر ڈال دیا، آئی سی یو کی بجلی اور آکسیجن کاٹ دی گئی، نومولود بچوں کے انکیوبیٹر بند ہوجانے سے بہت سے بچے جان سے گزر گئے، نرسیں ڈاکٹر حملوں کا شکار ہوئے، باقی بچنے والے فلسطینی بھوک پیاس اور دوائوں کی عدم موجودگی کے باعث تشویشناک صورت حال کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ’’انرا‘‘ UNRW کے مطابق پچھلے اتوار رفاہ میں ان کے مہمان خانے کو اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ انرا کے سربراہ فلپ لاذاینی کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے مراکز، اسپتال، اسکولوں، پناہ گاہوں اور عبادت خانوں سمیت غیر فوجی تنصیبات کو حملوں میں تحفظ دینے کے اصول کی پامالی اس ہولناکی کا ثبوت ہے کہ جس کا غزہ کے شہری روزانہ مشاہدہ کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنی امداد میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ یوں تو امریکا ہر سال 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دے ہی رہا تھا اب اس جنگ کے بعد اس میں اضافہ کردیا ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون لیزر گائیڈر میزائل نائٹ ویژن ڈیوائس، بنکر بسٹر گولہ بارود فوجی گاڑیاں اپاچی ہیلی کاپٹر اسرائیل کو فوری فراہم کرے گا۔ یعنی اسرائیل کی اس ہولناک درندگی کے باوجود اس کو اس قدر فوجی امداد فراہم کی جارہی ہے تا کہ وہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرسکے۔ دوسری طرف ہمارے مسلم حکمران مذمت اور مطالبات سے آگے نہیں بڑھتے جہاں اقدامات کی بات آتی ہے کہ عملی طور پر مشترکہ قدم اٹھایا جائے وہیں آپس میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔
12 نومبر کو ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کے 57 رکن ممالک اسرائیل کے خلاف کسی عملی اقدام پر ان تمام مظالم کے بعد اقوام متحدہ انسانی بنیادوں پر جنگ روکنے کا مطالبہ کررہی ہے، یعنی یہ مطالبہ 30 دن کی جنگ یعنی ہولناک بمباری کے بعد کیا جارہا ہے۔ 16 نومبر 2023ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں انسانی بنیادوں پر طویل المدتی وقفوں اور غزہ کی پٹی میں امداد کی فراہمی کے مطالبے پر دوبارہ قرار داد منظور کی اور اسرائیل نے اس قرار داد کو مسترد کردیا، یعنی اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل اسرائیل کی ترلے منتیں کررہی ہے اور اسرائیل کی حکومت میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہے۔ ادھر مغرب کی حکومتیں اسرائیل کے سارے ظالمانہ اقدامات کی حمایت کررہی ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور یورپ اسرائیل کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ امریکی صدر بھاگ بھاگ کر اسرائیل جاتے ہیں، اسرائیل سے یکجہتی اور اس کی سلامتی کے لیے اپنے ’’فولادی عزم‘‘ کار بار اعلان کرتے ہیں ساتھ ہی اہم اسرائیل اور اس کے حمایتوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے۔ جہاں جہاں کیا جاسکتا ہے، سختی سے کیا جائے، خاص طور سے ان مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں جن کے مالکان یہودی ہیں یا پھر جن کے پیرنٹ کمپنی کے مالکان یہودی ہیں۔ اسرائیل کے خلاف ہونے والی ریلیوں اور مظاہروں میں اپنا حصہ ڈالیں، سوشل میڈیا کے ذریعے غزہ اور حماس کی خبریں آگے بھیجیں، ان کے خلاف ٹرینڈ میں حصہ لیں، مالی معاون کریں، ہم اپنی خواہشات اور تنصیبات کی قربانی دیں۔ ہر ماہ ہمارے بجٹ میں ایک حصہ غزہ کے مسلمانوں کے لیے لازمی مختص ہو، اور پھر دعائوں کا سہارا لیں، تہجد میں گڑگڑائیں، ربّ کا دامن تھام کر ان کی اور اپنی استقامت اور ایمان کے لیے دعائیں کریں۔ ایک اور اہم کام ہے کہ اپنے نوجوانوں کو ٹیکنالوجی اور ریسرچ کی طرف متوجہ کریں، علم کے میدان کو خالی نہیں چھوڑنا۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دی جائے، انہیں مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے بارے میں آگاہ کریں اور اس کی صحبت دلوں میں اتاریں اور یہ سب مستقل بنیادوں پر ہونا چاہیے۔