شی پنگ، جو بائیڈن مذاکرات بے نتیجہ ختم؟

664

شی جن پنگ اور جو بائیڈن کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ ’’بائیڈن چینی صدر کے ساتھ سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ میں چین کی ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘‘ پر تشویش کا اظہار کرتے رہے لیکن اس دوران بائیڈن کو اسرائیل کا غزہ میں بھوکے پیاسے بچوں کے قتل عام کا خیال تک نہ آیا جہاں امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کر 5ہزار سے زائد بچوں اور 12ہزار عام شہریوں کے قتل عام میں اپنا ہر ممکن حصہ ڈال چکا ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران ایک سینئر امریکی اہلکار نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ بائیڈن اور شی جن پنگ نے مشرق وسطیٰ میں ابھرتے ہوئے بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے لیکن اس کی تفصیل بیان نہیں کی لیکن عالمی اخبارات کی اطلاعات ہیں کہ امریکا اسرائیل کے لیے حمایت حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے۔ چینی حکام نے مبینہ طور پر امریکی حکام کو بتایا کہ انہوں نے غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے علاقائی سطح پر پھیلنے سے متعلق خطرات پر ایران کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اسرائیل کو اس بارے میں خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

مذاکرات کے بعد بائیڈن کی نیوز کانفرنس میں سب سے اہم موڑ اس وقت سامنے آیا جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ شی جن پنگ ایک ڈکٹیٹر ہیں؟ اس پر بائیڈن نے جواباً کہا کہ: ’’ شی جن پنگ ایک ایسے شخص ہیں، جو ایک کمیونسٹ ملک چلا رہے ہیں، اس کی بنیاد، ہماری طرز حکومت سے بالکل مختلف ہے‘‘۔ دونوں رہنماؤں میں چار گھنٹے تک جاری بات چیت میں عسکری سطح کے روابط کی بحالی جیسے امور پر اتفاق بھی کیا۔ تاہم چین، تائیوان کشیدگی جیسے دیگر امور کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

جو بائیڈن نے کہا کہ ملاقات کا مقصد ’’ایک دوسرے کو سمجھنا‘‘ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ، روبرو بات چیت کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ان میں اور شی جن پنگ میں اتفاق نہیں رہا ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ شی جن پنگ کے ساتھ بات چیت میں بہت زیادہ پیش رفت ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا ایکس پر بائیڈن نے لکھا، میں آج صدر شی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی قدر کرتا ہوں۔ امریکا اور چین نے حقیقی طور پر ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ بائیڈن نے رواں برس کے اوائل میں اسی طرح کے تبصرے کیے تھے، جس پر بیجنگ میں شدید ردعمل ظاہر ہوا تھا۔ اس ملاقات کے بعد چینی صدر نے کہا کہ امریکا اور چین کے تعلقات انسانی تقدیر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس موقع پر بائیڈن نے چین سے کہا کہ وہ ایران پر اپنے اثر رسوخ استعمال کرے تاکہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کرے، جن کو اشتعال انگیز سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بائیڈن اور شی جن پنگ ملاقات میں عسکری سطح کے روابط میں اضافے کے کیا مقاصد ہیں۔ چینی وضاحت کے مطابق بائیڈن اور شی جن پنگ نے ایک ایسے وقت اپنی مسلح افواج کے درمیان فوجی رابطوں کی بحالی پر اتفاق کیا ہے، جب دونوں ممالک کے بحری جہازوں اور طیاروں کے درمیان غیر پیشہ ورانہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ نے ملاقات کے بعد کہا کہ انہوں نے بائیڈن کے ساتھ مساوات اور احترام کی بنیاد پر اعلیٰ سطحی فوجی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ چینی صدر اور میں نے اتفاق کیا کہ ہم میں سے ہر ایک براہ راست فون کال اُٹھا سکتا ہے اور ہمیں فوری طور پر ایک دوسر ے کو سننا ہوگا۔ بات چیت کے آغاز پر بائیڈن نے کہا تھا کہ دونوں رہنماؤں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مقابلہ تنازعے کا باعث نہ بنے۔ شی جن پنگ نے بائیڈن کو بتایا کہ کرۂ ارض دونوں ممالک کی کامیابی کے لیے کافی وسیع ہے۔ تحفظ پسندی کا رجحان عالمی معیشت پر بہت وزن رکھتا ہے۔ شی جن پنگ نے کہا کہ چین ’’امریکا کو پیچھے چھوڑنے یا ختم کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکاکو چین کو دبانے اور اس پر قابو پانے کی منصوبہ بندی بھی نہیں کرنی چاہیے‘‘۔

دونوں رہنمائوں کے درمیان بات چیت فلولی اسٹیٹ میں ہوئی یہ جگہ سان فرانسسکو سے باہر میلوں کے فاصلے پر واقع ایک ایسا مقام ہے، جو اپنی سلامتی، سکون اور امن کے لیے معروف ہے۔ ایک سینئر امریکی اہلکار نے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ شی جن پنگ نے کہا ہے کہ امریکا اور چین کے تعلقات میں تائیوان سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ عہدیدار نے شی کی ترجیح تائیوان کے ساتھ دوبارہ پرامن اتحاد کی ہے، لیکن چین اس کے لیے طاقت کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ چین جزیرہ تائیوان کو اپنی سرزمین بتاتا ہے۔ امریکا بھی تائیوان کے بارے میں چین کے مؤقف کو تسلیم کرتا ہے، تاہم وہ تائیوان کی حیثیت پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کرتا۔

بائیڈن نے چینی صدر شی جن پنگ کو بتایا کہ امریکا اپنے انڈو پیسیفک اتحادیوں کے دفاع کے لیے فولادی عزم رکھتا اور وہ ناٹو ممالک کا ہر صورت میں دفاع کر ے گا۔ چین کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق صدر شی جن پنگ نے بائیڈن کو بتایا، امریکا کو تائیوان کو مسلح کرنا بند کرنا چاہیے اور چین کے پرامن اتحاد کی حمایت کرنی چاہیے۔ عہدیدار نے کہا کہ شی یہ اشارہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ چین تائیوان پر بڑے پیمانے پر حملے کی تیاری نہیں کر رہا ہے، لیکن بائیڈن نے یہ بات صاف کر دی ہے کہ تائیوان کے بارے میں امریکی نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بیجنگ نے اس میٹنگ کی جو تفصیلات جاری کی ہیں اس کے مطابق شی نے بائیڈن پر معاشی پابندیاں ہٹانے اور حساس آلات کے برآمدی کنٹرول سے متعلق پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ چین کی تکنیکی ترقی کو روکنا چین کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو روکنے اور چینی عوام کو ان کے ترقی کے حق سے محروم کرنے کے اقدام کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔

اس پوری صورتحال سے یہ بات واضع ہے کہ شی جن پنگ، جو بائیڈن مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوئے؟ مذاکرات سے قبل اور بعد چین امریکا دونوں ممالک یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ان کی بلادستی کو عالمی سطح پر قبول کیا جائے لیکن یہ صورتحال دنیا کو امن کے بجائے عالمی جنگ کی جانب دھکیل رہی ہے۔