غزہ میں آگ اور خون کی تیز برسات

584

یہ بات شاید ہی کوئی صاحب دل برداشت کر سکیں کہ الشفا اسپتال فلسطین میں جس وقت جنریٹرز کا تیل ختم ہو رہا تھا عین اسی وقت وہاں سے چند کلو میٹرز کے فاصلے پر تیل سے مالا مال ممالک ’’او آئی سی‘‘ کے اجلاس میں سیکڑوں یونٹ بجلی خرچ کرکے فلسطین پر مظالم کرنے والے اسرائیل کے خلاف مذمتی تقریریں کر رہے تھے اور دوسری طرف امریکا اسرائیل کے لیے سینیٹ سے 75ارب ڈالرز فنڈ کا کی منظوری کا اعلان کر رہا تھا لیکن پورا عالم اسلام ’’الشفا اسپتال فلسطین‘‘ کے جنریٹر کے لیے چند لیٹر پٹرول کی فراہمی کو یقینی نہیں بنا سکا اور اس کے ساتھ ہی غزہ کے بچے آگ اور خون کی تیز برسات میں بہہ گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ الشفا اسپتال میں جنریٹرکی بندش کے بعد انکیو بیٹر میں 50 سے زائد معصوم فلسطینی بچے تڑپ تڑپ کر دم توڑ گئے اور ساری دنیا میں اسرائیل وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ’’او آئی سی‘‘ کی کوئی حقیقت نہیں اگر ساری دنیا بھی اسرائیل کی خلاف ہو جائے تب بھی غزہ پر حملے کا سلسلہ بند نہیں ہو گا

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہودیوں کی پوری تاریخ ظلم و ستم کی داستانیں ابتدائے افرینش سے آج تک کسی نہ کسی خطے میں کسی نہ کسی شکل میں اپنی روایات نبھا رہی ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کا معاملہ ہو یا عراق یمن و شام کے مظلوموں کی کہانیاں اور آئے دن دنیا میں بڑھتے ظلم و ستم کے سائے، اس تمام میں بہرطور یہودیوں کا ظلم آج بھی جاری و ساری ہے۔ عاقبت نااندیش ظالم یہویوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ظلم کی تاریخ میں تاتاریوں کے مظالم اور پھر ان کی تباہی کی داستان بھی رقم ہے ظلم جب اپنی حدوں سے تجاوز اور پانی جب سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ ظالموں کو اس طرح نیست ونابود کردیتے ہیں جیسے ان کا وجود صفحہ ہستی پر رہا ہی نہ ہو اور یہودیوں کی پوری تاریخ اس طرح کی تباہی سے بھری پڑی ہے۔ آج دنیا بھرکی امن تنظیمیں پکار رہی ہیں فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم روکے جائیں اقوام متحدہ قرارداد پاس کرتی ہے اسلامی ممالک کی تنظیمیں توجہ دلاتی ہیں۔ ان سب کے باوجود مسئلہ ِ فلسطین روز بہ روز بڑھ رہا ہے اور اب تو ان کا قتل عام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

نیتن یاہو نے 2009 میں فلسطینی ریاست کے قیام کی مشروط حامی بھری لیکن پھر اس کا موقف سخت سے سخت ہوتا گیا اور انہوں نے 2019 میں اسرائیلی ریڈیو اسٹیشن کو بتایا کہ ’فلسطینی ریاست نہیں بنے گی، کم از کم ایسی جیسی کچھ لوگ باتیں کر رہے ہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ بن یامین نتن یاہو کے 2009 میں دوبارہ وزیر اعظم بننے کے بعد سے فلسطینی حملوں اور اسرائیلی فوج کی جوابی کارروائی کی وجہ سے کشیدگی کا ماحول برقرار رہا۔ نیتن یاہو نے 2012 میں اسرائیل پر راکٹ حملوں کے بعد فلسطینی علاقوں پر حملوں کا حکم دیا لیکن زمینی فوج بھیجنے سے گریز کیا۔ کچھ عرصہ کے سکون کے بعد 2014 میں راکٹ حملوں کے بعد کشیدگی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی اور نیتن یاہو نے ایک بار پھر فوجی کارروائی کا حکم دیا۔ پچاس روز تک جاری رہنے والی جنگ میں 2100 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھا۔ اسرائیل کے 67 فوجی اور چھے عام شہری ہلاک ہوئے۔ اس جھگڑے کے دروان اسرائیل کو امریکی حمایت حاصل رہی لیکن صدر بارک اوباما اور نیتن یاہو کے تعلقات مشکلات کا شکار رہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب بڑی تعداد میں یہودی بھی مارے جارہے ہیں۔

تعلقات کی کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب نیتن یاہو نے مارچ 2015 میں امریکی کانگریس سے خطاب میں امریکا اور ایران کے مابین جوہری پروگرام کے حوالے سے ممکنہ معاہدے کو ’بری ڈیل‘ کہہ کر امریکا کو خبردار کیا کہ وہ ایسا نہ کرے۔ اوباما انتظامیہ نے اس کی مذمت کی اور نیتن یاہو کے دورے کو ’مداخلت‘ قرار دیا۔ اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے جواب میں غزہ پر بمباری کی گئی اور پورے علاقے کا محاصرہ کیا گیا جو فی الحال جاری ہے۔ ان نئے حملوں کے بعد نیتن یاہو روئے زمین سے ’حماس کا نام و نشان مٹانے‘ کا اعلان کررہا ہے۔ اور مذاکرات بھی حماس ہی سے کر رہا ہے۔

عالمی ادارئہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے غزہ کے الشفا اسپتال میں رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں، مریضوں، سیکڑوں زخمیوں اور طبی عملے کی زندگیوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غزہ کا الشفا اسپتال اسرائیلی فورسز کے محاصرے میں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا خیال ہے کہ الشفا اسپتال میں ان کے رابطے میں موجود افراد شاید ان لاکھوں فلسطینیوں میں شامل ہو گئے ہیں جو جان بچانے کی غرض سے شمالی غزہ سے چلے گئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحیرہ روم کے ریجنل آفس کے سربراہ کے دفتر سے جاری بیان میں کہا کہ ’ڈبلیو ایچ او شمالی غزہ کے الشفا اسپتال میں اپنے روابط کھو چکا ہے۔ اسپتال پر مسلسل حملوں کی خوفناک خبریں آرہی ہیں یہ خبریں ان سطور کی تحریر تک بھی جاری تھیں۔ ریجنل آفس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ہمیں یہی لگتا ہے کہ اسپتال میں موجود ہمارے لوگ دیگر لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کی طرح وہاں سے نکل چکے ہیں۔ فلسطین کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ الشفا اسپتال میں لگ بھگ 15 سو مریض تھے جس کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ وہاں کام کرنے والے طبی عملے کی تعداد بھی تقریباً 15 سو ہے۔ وہاں 15 سے 20 ہزار ایسے افراد بھی موجود ہیں جو پناہ کے متلاشی ہیں لیکن اس کی عمارت کے باہر دھماکے اس وقت تک جاری رکھے گئے جب تک پورا اسپتال تباہ نہیں ہو گیا۔

اس سے قبل اسرائیلی فورسز کے حملوں کے بعد ہزاروں افراد الشفا اور دیگر اسپتالوں سے نکلے تھے لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں ہر ایک کے لیے نکلنا ناممکن ہے۔ انٹرنیشنل ریڈکراس کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹ مردینی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ الشفا اسپتال میں جاری ’ناقابل برداشت بری صورتحال‘ کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے وزیرِ دفاع اور سابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن ایک نیا فلسفہ بیان کر رہے ہیں کہ اسرائیل فلسطین جنگ میں اخلاقیات کی کوئی جگہ نہیں، ساری دنیا کے اسلامی ممالک کے حکمران بظاہر تو نہیں لیکن دل کے کسی نہ کسی خانے میں وہ بھی ایسا سوچ رہے ہیں یا سوچنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس غیر اسلامی ممالک اعلانیہ اعلان کر رہے ہیں کہ ’’’اسرائیل فلسطین جنگ میں اخلاقیات کی کوئی جگہ نہیں‘‘۔