الیکشن کمیشن اپنی ساکھ بحال کرے

457

عدالت عظمیٰ نے میڈیا کو پابند کردیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق خبروں سے احتراز کریں، ان کے انعقاد کو مشکوک نہ کیا جائے لیکن الیکشن کمیشن انتخابات کے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ شفاف انعقاد کے بارے میں کیا عمل کررہا ہے اس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پیر کے روز اخبار جنگ میں خبر شائع ہوئی کہ الیکن کمیشن انتخابی عمل سے آگاہی میٹا اور فیس بک کے ساتھ حکمت عملی تیار کررہا ہے۔ اس کے نیچے خبر لگی ہے کہ الیکشن کمیشن ریٹائرڈ افسروں کی ڈی آر او تعیناتی کا منصوبہ بنارہا ہے۔ خبر میں پی ٹی آئی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ گریڈ 17 اور 18 کے گزشتہ ایک سال میں ریٹائر ہونے والے افسروں کو ڈی آر او اور اسسٹنٹ ڈی آر او تعینات کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے اسے الیکشن میں دھاندلی کی کوشش قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جس خبر میں انتخابی عمل سے آگاہی کا تذکرہ کیا گیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ 15 نومبر تک انتخابی فہرستیں مکمل کرلی جائیں گی۔ سیاسی جماعتوں، مبصرین اور میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ پریذائیڈنگ افسران، اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسران اور پولنگ عملے کی فہرست کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ اس خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سماجی پولرائزیشن سے نمٹنے کے لیے فیس بک کے معیارات کا اردو اور علاقاقی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا جائے گا۔ اس خبر کے مطابق الیکشن کمیشن متعلقہ ڈی آر اوز کی فہرست کو حتمی شکل دے رہا ہے لیکن اس کے نیچے لگی ہوئی خبر میں اس پر تنقید ہے۔ تاہم منگل کو الیکشن کمیشن نے ریٹائرڈ کے بجائے ڈی آر اوز اور ریٹرننگ افسروں کی تعیناتی کے حوالے سے میڈیا میں چلنے والی تمام خبروں کی تردید کردی ہے۔ اس تردید میں ریٹائرڈ افسروں کے تقرر کی خبروں کو گمراہ کن قرار دیا۔ اور کہا ہے کہ صوبائی الیکشن کمشنرز کو بارہا مراسلے لکھے گئے ہیں کہ اس تقرر کے لیے نئی فہرستیں تیار کی جائیں۔ یہ ایک جاری عمل ہے اور تعیناتی کے عمل کو مختلف زاویوں سے دیکھا جارہا ہے تاکہ انتخابات غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوسکیں۔ اگر یہ جاری عمل ہے تو ایک روز قبل کی خبر کو کیا سمجھا جائے۔ عمر ایوب کے خدشات کو ایک طرف رکھ دیں میٹا اور فیس بک کے ساتھ حکمت عملی والی خبر میں عملے کو حتمی شکل دینے کی بات کی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی اس وضاحت کو بھی من و عن قبول کرلیا جائے تو بھی پاکستان کے ایک سرے سے آخری کونے تک چلے جائیں کون انتخابات کو منصفانہ شفاف اور غیر جانبدارانہ قرار دے گا۔ جو الیکشن کمیشن ایک شہر کے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد، اس کی تکمیل کے بعد میئر کے انتخاب اور اس انتخاب میں دھاندلی اور بے ہودگی کے تماشے پر آواز تک نہ اُٹھا سکا وہ کیونکر آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کراسکے گا۔ پاکستان میں انتخابات کے انعقاد میں تاریخوں سے زیادہ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے پر شبہات رہتے ہیں اور یہ شبہات الیکشن کمیشن کی وضاحت کے باوجود باقی ہیں۔ الیکشن کمیشن میٹا اور فیس بک کے ساتھ تو اشتراک کررہا ہے اور اردو اور علاقائی زبانوں میں تراجم کی بھی بات کررہا ہے لیکن اس کا سہ ماہی ترجمان مجلہ بھی انگریزی میں شائع ہوتا ہے۔ جس سے پاکستان کے ووٹرز کی بھاری اکثریت ناواقف ہے۔ انگریزی میں آگہی کے کیا معنی ہیں، انگریزی میں کس کو آگہی دی جائے گی۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ جو لوگ آر او، ڈی آر او اور انتخابی عملے کے طور پر تعینات ہوتے ہیں ان میں سے بھی کئی لوگ پولنگ ایجنٹوں سے پڑھنے میں مدد لیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پولنگ کے عملے پر انتخابات کے منصفانہ ہونے کا بڑا انحصار ہوتا ہے اور ایسے لوگوںکو پولنگ افسر تعینات کیا جانا چاہیے جن پر الیکشن کمیشن کے سوا کسی کا اختیار بعد میں اور پہلے بھی نہ ہو۔ جن لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے وہ صوبائی یا وفاقی حکومتوں کے ملازم ہوتے ہیں ان پر ان کے افسران اور ان پر آنے والی یا نگراں حکومت کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے، وہ کیونکر ایک شفاف، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کراسکیں گے۔ کراچی میں گزشتہ انتخاب تک کھلی آنکھوں نے ایم کیو ایم کے کارکن پریذائیڈنگ و پولنگ افسران کو بھگتا ہے اور پیپلز پارٹی کے ملازم ریٹرننگ افسروں کو بھگتا ہے۔ ایسے الیکشن کمیشن کو الیکشن سے قبل اپنی ساکھ بہتر بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، بیانات، دعوئوں اور تردیدوں سے ساکھ بہتر نہیں ہوتی۔ اور ضابطہ اخلاق صرف صحافیوں اور عام ووٹرز کے لیے ہوگا یا بڑی اور منظور نظر جماعتوں کے لیے بھی کوئی ضابطہ اخلاق بروئے کار لایا جائے گا۔