پارلیمنٹ بمقابلہ عدالت عظمیٰ

425

پاکستان کے ایوان بالا نے عدالت عظمیٰ کی رولنگ کے خلاف قرار داد منظور کرلی۔ قرار داد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف عدالتی کارروائیاں فوجی عدالتوں میں ہونی چاہئیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اس کی مخالفت کی۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ جب تک لارجر بنچ اس کا جائزہ نہ لے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔ بنچ کا فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں تھا قانونی ابہام ہے، لارجر بنچ اس کا جائزہ لے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قانون کو دوبارہ لکھنے کی کوشش ہے، پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے اور اصل مطالبہ یہ کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعے میں ملوث افراد کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر کوئی عام آدمی تبصرہ کرے سیاستدان بھی تبصرہ کرکے اس پر تنقید کرے تو اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی یا دھمکیاں آجاتی ہیں لیکن پارلیمان کے ایوان بالا میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف قرار داد کی منظوری پارلیمان بمقابلہ عدالت عظمیٰ کشمکش کا باضابطہ اعلان ہے۔ حالانکہ جو کچھ قرار داد میں کہا گیا ہے یہی موقف لے کر خواہشمند لوگ عدالت عظمیٰ جاسکتے تھے۔ نظرثانی کی درخواست، ابہام، جو باتیں نظر انداز ہوگئی ہیں ان کی جانب نشاندہی وغیرہ اور لارجر بنچ کی تشکیل کا مطالبہ یہ سب عدالت عظمیٰ سے کرنے چاہیے تھے۔ اس طرح تو ایک قرار داد کوئی مخالف گروپ اس موقف کے خلاف بھی منظور کراسکتا ہے۔ آئین اور قانون کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خواہش کی اس سے زیادہ خراب مثال اب تک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں نظر نہیں آئی۔ اس قسم کے عمل سے سینیٹ اور عدالت عظمیٰ میں کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے اتنا سنگین بھی نہیں تھا جتنا 9 مئی ۱۸۵۷تھا لیکن پاکستان کے سارے خوفناک دنوں سے زیادہ اس کو خوفناک بنادیا گیا۔ اس دن جو جو غلط کام ہوئے تھے ان کی گرفت کی جانی چاہیے لیکن ایسے راستے نہیں کھولنے چاہئیں جن کا وہاں آنے والے دنوں میں تمام سویلین پر آن پڑے۔ اور ممکن ہے ایسے مطالبات کرنے والے بھی اس کی زد میں آجائیں۔