غزہ پروحشیانہ بمباری

621

یک قطبی سیاسی قوت‘ امریکی قیادت انسانیت دوستی اور انصاف پسندی کے تمام دعووں کے باوجود بین الاقوامی معاملات میں جو دوہرے معیارات رکھتی ہے وہ ایسی بیّن حقیقت ہیں جن کا مشاہدہ کھلی آنکھیں رکھنے والا ہر شخص بآسانی کرسکتا ہے۔ عالم اسلام کے ساتھ معاملات میں امریکا کا یہ رویہ اور بھی کھل کر سامنے آتا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے مسلمان امریکا اور اس کے حامی مغربی ملکوں کے اسی طرزعمل کی وجہ سے تقریباً آٹھ عشروں سے اسرائیل اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کا شکار چلے آرہے ہیں۔ فلسطین کے دوریاستی حل اور کشمیر میں رائے شماری پر اقوام متحدہ میں عالمی تائید کے باوجود یہ معاملات امریکا کی عدم دلچسپی کے باعث معلق ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے علاقے غزہ پر ایک ماہ سے جاری وحشیانہ بمباری پر بھی جس کے نتیجے میں جانی نقصان گیارہ ہزار تک پہنچ رہا ہے، اسپتال اور اقوام متحدہ کے دفاتر تک کھنڈر بن چکے ہیں اور سنگین انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، امریکی قیادت نے جنرل اسمبلی میں اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی بھاری اکثریت کی جانب سے فوری جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود یہی رویہ اختیار کررکھا ہے جبکہ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کے ذریعے ناکام بنایا گیا ہے اردن میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کی گول میزکانفرنس میں شریک امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرتے ہوئے جنگ بندی کے مطالبے کو ایک بار پھر مسترد کر دیا۔ عرب رہنمائوں سے ملاقات کے موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہم اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت کرتے ہیں، اسرائیل کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے تمام اقدامات کرنے چاہئیں۔ عمان میں عرب وزرائے خارجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انٹونی بلنکن نے مزید کہا کہ حماس کو فلسطینیوں کے حال اور مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں، غزہ میں ابھی جنگ بندی سے حماس کو دوبارہ منظم ہونے اور حملے کرنے کا موقع مل جائے گا تاہم شہریوں کے تحفظ، امداد اور غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے انسانی بنیادوں پر وقفہ کارآمد ہو سکتا ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق کانفرنس کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے کہا کہ غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں کو دفاع قرار نہیں دیا جا سکتا، ہم غزہ میں معصوم شہریوں کے قتل عام، اسپتالوں، ایمبولینسوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں پر حملوں کو اسرائیل کا حق دفاع نہیں سمجھتے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں مصری وزیر خارجہ نے غزہ میں غیر مشروط اور فوری جنگ بندی کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی ہمیشہ یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ تنازعات میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرے نہ کہ تشدد میں اضافے کی حمایت کرے۔ پریس کانفرنس کے موقع پر انٹونی بلنکن سے اختلاف کرتے ہوئے عرب رہنمائوں کا کہنا تھا کہ اس وقت بنیادی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت غیرمشروط اور فوری طور پر بند کی جائے۔ حق دفاع کے نام پر اسرائیل کی وحشت و درندگی کے دفاع والے امریکی موقف کے مقابلے میں عرب وزرائے خارجہ کے فوری جنگ بندی کے موقف کا انسانیت دوستی اور معقولیت پر مبنی ہونا بالکل واضح ہے۔ اپنی سرزمین غصب کیے جانے اور اس کے بعد تمام انسانی حقوق سے محروم کردیے جانے کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو مجرم اور اس کے مقابلے میں غاصب و ظالم کو برسرحق قرار دینا انصاف نہیں دھاندلی ہے۔ فلسطین کے جس دو ریاستی تصفیے پر عالمی اتفاق ہے، مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے فوری جنگ بندی اور پھر بلاتاخیر اس سمت میں نتیجہ خیز پیش رفت ناگزیر ہے جبکہ اسرائیلی درندگی کے دفاع کا نتیجہ عالمی امن کی تباہی کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔