مسئلہ غزہ نہیں اسرائیلی قبضہ ہے

577

آخر وہی ہورہا ہے جس جانب معاملات کو لے جانے والے لے جانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل کا ناجائز قیام اس کا ناجائز قبضوں میں اضافہ اس کی جانب سے فلسطینی بستیوں پر مزید قبضے اسرائیل کے ہاتھوں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے اور 80 برس سے جاری ظلم و ستم کو چھوڑ کر امت مسلمہ کے ممالک سے صرف غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کروادیا گیا۔ او آئی سی اور عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا اور اس میں غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے اور اسرائیل کے حق دفاع کو فلسطینیوں پر بمباری کا جواز تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ مطالبات کی حد تک تو ٹھیک ہے کہ اس قسم کے مطالبات کیے گئے ہیں لیکن سب کا محور غزہ کا حالیہ تنازع تھا اور اس علاقے میں جنگ بندی، اس علاقے میں امداد کی فراہمی خوراک کی فراہمی وغیرہ مسئلہ فلسطین کا پائیدار حل نہیں ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ جس طرح پیدا ہوا اس کے برعکس اقدام ہی سے اس کا حل نکلے گا۔ لیکن اب ساری دنیا غزہ میں جنگ بندی پر زور دے رہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ عرب سربراہوں اور او آئی سی نے کہا ہے اور اب مغربی ممالک اور اسرائیل کے سرپرست اسے مسلم ممالک کا مطالبہ قرار دے کر غزہ میں جنگ بندی پر زور دیں گے لیکن سارے ڈرامے کے نتیجے میں اسرائیلی قبضے کا معاملہ پس پشت چلا جائے گا بلکہ چلا گیا ہے۔ اسلامی ممالک کے رہنمائوں نے اسرائیلی بمباری پر تنقید بھی کی اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی بھی لیکن بڑے محتاط انداز میں۔ ترک رہنما رجب طیب اردوان نے کہا کہ یروشلم ہماری ریڈ لائن ہے، اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع کا پائیدار حل نکالنے کے لیے انہوں نے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا۔ حالانکہ اسرائیل بار بار ریڈ لائن عبور کرچکا اور کئی بین الاقوامی کانفرنسز ہوچکیں لیکن درد بڑھتا گیا جون جوں دوا کی والا معاملہ ہوگیا ، مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے بھی غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی ہورہی ہے لیکن انہوں نے بھی مطالبہ امریکا ہی سے کیا کہ اسرائیل کو جارحیت سے روکے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور محمد بن سلمان نے نسبتاً بہتر اور مضبوط بات کی۔ رئیسی نے کہا کہ اسرائیلی فوج کو دہشت گرد قرار دیا جائے اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھنے والے ممالک فلسطینیوں کی زیادہ حمایت کریں۔ لیکن یہ بھی مسئلہ فلسطین کا اصل حل نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین کا حل اسرائیل کا قبضہ ختم کرانے اور با اختیار فلسطینی ریاست کو بحال کرنے میں ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس جانب اشارہ ضرور کیا کہ فلسطینیوں کے خلاف جرائم کا ذمے دار اسرائیلی قبضہ ہے لیکن انہوں نے بھی اسرائیلی فوجی جارحیت کے خاتمے کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کردیا۔ اگر اس سارے قفیے کی جڑ اسرائیلی قبضہ ہے تو تمام ممالک کو مل کر اسرائیلی قبضہ ختم کرانے کا مطالبہ کرنا چاہیے نہ کہ سب غزہ پر بھرپور توجہ دینے لگیں۔ غزہ کا معاملہ مسئلے کی بنیاد نہیں ہے بلکہ حماس بھی مسئلہ نہیں ہے۔ حماس تو اسرائیلی قبضے اور اس کو جواز بخشنے کے مغربی ممالک اور مسلم ممالک کے رویوں کا ردعمل ہے۔ اس ردعمل کو صرف ردعمل ہی سمجھا جانا اور قرار دیا جانا چاہیے اصل مسئلہ قرار دے کر توجہ ہٹانے کی ضرورت نہیں۔ اس امر پر پہلے بھی توجہ دلائی جاچکی ہے کہ اسرائیلی جارحیت بمباری اور مظالم میں اضافہ اسی لیے کیا گیا ہے کہ اصل مسئلہ پس پشت ڈال دیا جائے۔ پاکستان کے نگراں ویراعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے خطاب میں سلامتی کونسل پر غزہ میں قتل عام رکوانے کی ذمے داری کا ذکر کیا اور ایک مرتبہ پھر اسرائیل کے وجود کو برقرار رکھتے ہوئے دو ریاستی حل کا اعادہ اس طرح کیا کہ علیحدہ فلسطینی ریاست کا قیام ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ اسلامی ممالک کسی کے دیے ہوئے ایجنڈے سے غزہ میں امن غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیل اور حماس کو فریق بنانے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ حالاں کہ فریق اسرائیل اور فلسطین کے عوام ہیں فلسطین کے لوگوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق حماس بنائی اور جوابی کارروائیاں شروع کیں لیکن اس سے مسئلے کی نوعیت بدل نہیں سکتی۔ ابھی حماس اتنی مضبوط نہیں یا اسے اتنا مضبوط تصور نہیں کیا جاتا کہ اس سے مذاکرات کیے جائیں لیکن اسرائیل امریکا اور مغربی ممالک جس نہج پر چل رہے ہیں اس کے نتیجے میں حماس اسی طرح مضبوط ہوتی جائے گی جس طرح افغانستان میں طالبان ہوئے اور پھر بالآخر امریکا کو طالبان ہی سے مذاکرات کرنا پڑے اور انخلا پر راضی ہوا۔ اس کو حل کرنے کے دو ہی راستے ہیں تمام قابضین فلسطینی علاقے خالی کردیں اور اپنے اپنے ملکوں کو جائیں ورنہ اسلامی ممالک اسی طرح فلسطینیوں اور حماس کی حمایت کریں جس طرح امریکا، برطانیہ، کینیڈا، فرانس اور دوسرے یورپی ممالک کررہے ہیں۔ لیکن مسئلے کو ٹھیک طرح سمجھا جانا چاہیے۔