!او آئی سی اجلاس: نشستند، گفتند، برخاستند

1148

اسرائیل کی دہشت گردی سے اب تک 11 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں 4 ہزار سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔ غزہ کا مکمل محاصرہ ہے، 23 لاکھ افراد کو پانی، کھانے اور ایندھن کی فراہمی معطل جبکہ مواصلاتی نظام منقطع ہے۔ اموات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور گھروں اور انفرا اسٹرکچر کی تباہی مزید بڑھ رہی ہے۔ عالمی برادری کو اس جاری انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری قدم اٹھانا چاہیے لیکن ہنوز صرف باتیں ہورہی ہیں۔ غزہ کی صورتِ حال پر اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا آٹھواں غیر معمولی سربراہ اجلاس سعودی عرب کی دعوت پر آج ریاض میں ہورہا ہے۔ یہ اجلاس فلسطینی عوام کے خلاف وحشیانہ اسرائیلی جارحیت پر تبادلہ خیال کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے امت کے معاملے میں او آئی سی کا کردار ہمیشہ بدترین رہا ہے جب کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے جس کی رکن 57 ریاستیں ہیں۔ اس کا بیان کردہ مقصد مسلم ممالک میں یکجہتی، تعاون اور اقتصادی ترقی کو مضبوط بنانا بھی ہے، لیکن بدقسمتی سے فلسطین کے معاملے پر او آئی سی کا ریکارڈ بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ او آئی سی سے متعلق ایک مضبوط رائے ہے کہ اس کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے ہی آج اسرائیلی دندناتے پھر رہے ہیں، جب کہ او آئی سی کی بنیاد 1969ء میں یروشلم میں مسجد ِ اقصیٰ کو نذرِ آتش کرنے کے بعد رکھی گئی تھی، اور اس کے قیام کا مقصد اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں مسلم ممالک کو متحد اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ تاہم او آئی سی اپنے کردار، مقصد اور وعدے پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ 1973ء میں او آئی سی نے رباط کی قرارداد منظور کی جس میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ تاہم او آئی سی مفادات پر مبنی اپنی پالیسی کی وجہ سے ان قراردادوں پر عمل درآمد کرانے سے قاصر ہے۔ او آئی سی نے مسئلہ فلسطین پر متعدد سربراہ اجلاس اور کانفرنسیں منعقد کیں، لیکن اکثر ان کا نتیجہ بیانات کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ تنظیم کو اتحاد کے فقدان اور اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن کارروائی میں ناکامی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک اور اجلاس بڑی دیر بعد منعقد ہورہا ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اس پس منظر میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی پیش کردہ سات نکاتی تجاویز مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ایک جامع اور عملی قدم معلوم ہوتی ہیں۔ اْن کے مطابق حماس کی قیادت کو اس اہم اجلاس میں فلسطینی عوام کے نمائندے کی حیثیت سے دعوت دی جائے۔ بلا شبہ جب تک حماس کو جو اصل میں فلسطینی عوام کی نمائندہ ہے، اس سارے عمل کا حصہ نہیں بنایا جائے گا یہ اجلاس بے نتیجہ ہی رہیں گے۔ سراج الحق نے یہ بھی کہا ہے کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے فلسطین فنڈ قائم کیا جائے تاکہ اس وقت بے یار و مددگار لاکھوں انسانوں کی مناسب مدد ہوسکے۔ تمام اسلامی ممالک اسرائیل کا اقتصادی بائیکاٹ کریں، جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے وہ صہیونی ریاست سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کریں۔پوری دنیا میں غزہ سے یکجہتی کا ایک روز منایا جائے، تمام اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں ریلیاں اور مارچ منعقد ہوں جن میں انسانیت کے لیے درد رکھنے والے غیر مسلم اور تمام مسلمان شرکت کریں۔ امیر جماعت نے رفح کراسنگ پر غزہ کے زخمیوں کی مدد کے لیے بڑے اسپتال کی فوری تعمیر کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اہلِ فلسطین کو کسی قسم کی سیکورٹی میسر نہیں، اسلامی ممالک متحد ہوکر ان کی سیکورٹی کے لیے پلان مرتب کریں۔ امیر جماعت نے کہا کہ اسرائیل عالمی برادری کی جانب سے سیزفائر کے مطالبات کو مسلسل نظرانداز کررہا ہے اور جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے جس سے غزہ میں بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، نصف سے زائد شہر کھنڈر بن چکا ہے، ہزاروں بچے اور خواتین شہید ہوگئے لیکن اقوام متحدہ کا ادارہ اسرائیلی جارحیت رکوانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کے حکمران پْرزور طریقے سے فلسطین کا مقدمہ لڑیں، بصورتِ دیگر امت اور تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔ او آئی سی کو مسئلہ فلسطین پر مزید فعال کرنے اور مزاحمت پر مبنی رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ تنظیم کو فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے مربوط اور موثر حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ وگرنہ یہ بات طے شدہ ہے کہ مستقبل میں یہ ممالک بھی اسرائیل کے نشانے پر ہوں گے۔