!خیر سگالی اپنوں کے لیے بھی ضروری ہے

524

اخباری اطلاع ہے کہ حکومت پاکستان کی ہدایت پر جذبہ خیر سگالی کے تحت اسی بھارتی ماہی گیروں کو جمعرات کے روز کراچی کی ملیر جیل سے رہا کر دیا گیا ہے، جس کے بعد انہیں سخت حفاظتی انتظامات میں کراچی کے چھائونی ریلوے اسٹیشن پہنچایا گیا وہاں سے علامہ اقبال ایکسپریس ٹرین کے ذریعے لاہور کے واہگہ بارڈر لے جایا گیا۔ جہاں سے انہیں بھارت روانہ کر دیا گیا ایدھی فائونڈیشن کے ترجمان کے مطابق ماہی گیروں کے سفری اخراجات ایدھی فائونڈیشن نے برداشت کیے جب کہ بھارت روانگی سے قبل ان ماہی گیروں کو نقد رقم، کپڑے اور دوسرا ضروری سامان بھی دیا گیا۔ 80 ماہی گیروں کی رہائی کے بعد ملیر ڈسٹرکٹ جیل میں 184 بھارتی ماہی گیر باقی رہ گئے ہیں جب کہ رواں سال جذبہ خیر سگالی کے تحت حکومت پاکستان نے 399 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کیا۔ رہائی پانے والے بھارتی ماہی گیروں کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ ملیر جیل انتظامیہ کا رویہ بہت اچھا تھا، کھانے پینے اور دیگر چیزوں کے لیے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ بھارتی ماہی گیروں کو رخصت کرنے والے ملیر ڈسٹرکٹ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ جیل میں گنجائش سے بہت زیادہ قیدی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ بھارتی حکومت بھی اسی جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرے گی اور جلد پاکستانی قیدی بھی رہا ہو کر پاکستان آئیں گے۔ جذبۂ خیر سگالی یقینا بہت اچھی چیز ہے خصوصاً جب دو ہمسایہ ملکوں کے مابین اس کا اظہار ہو تاہم یہ اظہار خیر سگالی کسی بھی صورت یک طرفہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس وقت پاکستان کے مختلف حصوں میں آئے روز ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کے بارے میں یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس میں بھارت کے خفیہ ادارے براہ راست ملوث ہیں اور ان وارداتوں کی وجہ سے پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کے اہلکار اور معصوم و بے گناہ شہری نشانہ بنتے، شہید اور زخمی ہوتے ہیں۔ پاکستان اکثر اس پر احتجاج بھی کرتا ہے اور بین الاقوامی اداروں میں بھی بھارت کے اس جارحانہ اور دہشت گردانہ کردار کو بے نقاب کرتا رہتا ہے مگر بھارت کے طرز عمل میں کوئی نمایاں فرق محسوس نہیں ہوتا۔ ان حالات میں حکومت پاکستان کو اپنے یک طرفہ اظہار خیر سگالی کے رویہ پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ مسلمانوں کے بارے میں اسلام اور قرآن کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ باہم ایک دوسرے پر رحم کرنے والے اور کافروں سے ان کا رویہ سخت ہوتا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کا معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے وہ اپنے ازلی دشمن ملک سے تو، اس کی زیادتیوں اور تخریب کاریوں کے باوجود اکثر و بیش تر خیر سگالی اور در گزر کا معاملہ کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر اندرون ملک اپنے شہریوں سے ان کا رویہ قطعی مختلف ہوتا ہے اس وقت کون نہیں جانتا کہ سیکڑوں سیاسی کارکنوں کو 9 مئی کے واقعات کو جواز بنا کر جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے جن میں بڑی تعداد میں خواتین سیاسی کارکنان بھی شامل ہیں۔ عدالتیں ان کارکنوں کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیتی ہیں مگر انہیں رہا کرنے کے بجائے کسی دوسرے مقدمہ میں گرفتاری ڈال دی جاتی ہے، جو سیاسی کارکن خود کسی وجہ سے گرفتار نہیں کیے جا سکے ان کے رشتے داروں اور عزیزوں کو پکڑ لیا جاتا ہے حالانکہ قانون میں اس کی واضح ممانعت موجود ہے، حکومت اور ارباب اختیار کے اس طرز عمل کے باعث اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ ان کارروائیوں کے پس پشت انتقام کا جذبہ کار فرما ہے حکومت کی اس سخت گیری کے سبب پولیس اور دیگر متعلقہ، محکموں کے اہلکاروں کو بھی من مانی کرنے اور غیر متعلقہ افراد کو بھی نو مئی کے واقعات میں ملوث قرار دے کر رشوت خوری اور مال بنانے کے وافر مواقع فراہم ہو گئے ہیں یوں نو مئی کی آڑ میں یہ عناصر قانون اور قواعد و ضوابط کو کھلے بندوں پامال کر رہے ہیں۔ اب جب کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی مداخلت سے ملک میں 8 فروری 2024ء کو عام انتخابات کا بگل بھی بج چکا ہے، ارباب اختیار کو اپنے طرز عمل کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے اور جس جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ ان کی طرف سے دشمن ملک اور اس کے باشندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اس سے اپنے اہل وطن کو بھی محروم نہیں رکھا جانا چاہیے تاکہ ملک کی سیاسی فضا میں موجود تلخی میں کمی آ سکے اور متوقع عام انتخابات کے صاف، شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے سے متعلق ظاہر کیے جانے والے خدشات کا ازالہ بھی ہو سکے…!!!