کیا جماعت اسلامی اقتدار میں آسکتی ہے؟

763

ہمارے ایک دوست ملکی اور عالمی سیاست اور خطے کی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ نہایت وسیع المطالعہ ہیں اور ان سے اکثر حالاتِ حاضرہ پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ناقد بھی ہیں اور قدر دان بھی۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستانی سیاستدان جب حالات بہت بگاڑ دیتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کو مجبوراً سیاست میں دخل اندازی کرنا پڑتی ہے کیونکہ اس نے بہرکیف ملک کے تحفظ کی ذمے داری اپنے سر لے رکھی ہے اور یہ تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہو اور تمام ادارے پرسکون انداز میں کام کررہے ہوں۔ ایک دن ہم نے ان سے پوچھا کہ اسٹیبلشمنٹ اگر واقعی اتنی ہی محب وطن اور درد مند ہے تو وہ چلے ہوئے کارتوس کیوں آزماتی ہے اور ان سیاستدانوں کی سرپرستی کیوں کرتی ہے۔ جن پر ملک لوٹنے، بڑے پیمانے پر کرپشن کرنے اور ملک کو اندھیروں میں دھکیلنے کا الزام ہے؟ وہ جھٹ سے بولے ’’عمران خان پر تو ایسا کوئی الزام نہیں تھا، یہ اسٹیبلشمنٹ کا نہایت شاندار تجربہ تھا۔ اس نے قومی سیاست میں ایک ایسا سیاستدان متعارف کردیا تھا جو قوم کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن یہ تجربہ اس لیے ناکام ہوگیا کہ اس کے گرد خوشامدی، نااہل اور بدقماش لوگوں نے گھیرا ڈال لیا اور اسے مسلسل گمراہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کی ٹھن گئی اور اسٹیبلشمنٹ نے تحریک عدم اعتماد کے جمہوری عمل کے ذریعے اسے اقتدار سے نکال باہر کیا‘‘۔
ہم نے کہا ’’چھوڑیے اس قصے کو۔ اب اسٹیبلمنٹ ایک ایسے سیاستدان کی سرپرستی کیوں کررہی ہے جو ایک سزا یافتہ مجرم ہے اور عدالت سے تاحیات نااہل ہوچکا ہے‘‘۔
انہوں نے ایک عجب سی ہنسی ہنستے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مخلص اور سچی قیادت کا فقدان ہے، ہر پھر کر اپنی آزمودہ سیاستدانوں پر نظر پڑتی ہے اور جو سیاستدان نسبتاً بہتر نظر آتا ہے اسٹیبلشمنٹ اس پر ہاتھ رکھ دیتی ہے۔ عمران خان تو اپنی حماقتوں اور جلد بازی کے سبب اقتدار کی دوڑ سے باہر ہوچکے، اب ان کے حریف سیاستدانوں میں صرف نواز شریف ہی ایک ایسے سیاستدان ہیں جو یہ دوڑ جیت سکتے ہیں۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ ان کی کرپشن کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہے۔
ہم نے بے اختیار کہا ’’کرپٹ سیاستدان کی سرپرستی کیا ضروری ہے۔ آخر سراج الحق اور ان کی جماعت اسلامی بھی تو میدان میں ہیں جن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں، سراج الحق کو تو عدالت عظمیٰ بھی صادق و امین قرار دے چکی ہے۔ آخر اسٹیبلشمنٹ انہیں کیوں موقع نہیں دیتی؟ وہ ہنسے ’’میرؔ بھی کتنے سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!!
یہ شعر سنانے کے بعد بولے ’’کیا آپ نہیں جانتے کہ جنرل ایوب خان کے زمانے میں یہی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ تھی جس نے جماعت اسلامی کا گلا گھونٹنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اسے خلاف قانون قرار دے کر پورے ملک میں اس کے دفاتر کو سربمہر کردیا گیا تھا اور مولانا مودودی سمیت جماعت کے تمام قائدین گرفتار کرلیے گئے تھے۔ وہ تو کہیے اس زمانے میں فوجی آمریت کے باوجود عدالت آزاد تھی اور اس میں جسٹس کارنیلئس ایسے انصاف کرنے والے جج موجود تھے جنہوں نے جماعت اسلامی کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے فوجی آمر کا حکم خلاف قانون قرار دے دیا اور جماعت اسلامی بحال ہو کر پھر فوجی آمر کے سینے پر مونگ دلنے لگی۔ اگر موجودہ زمانے کی عدالتیں ہوتیں تو جماعت اسلامی قصہ پارینہ بن چکی ہوتی اور آج اس کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوتا‘‘۔ جنرل ایوب خان کے بارے میں یہ طے ہے کہ وہ امریکی ایجنٹ تھے، سی آئی اے کی دستاویزات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ اس کے پے رول پر تھے۔ وہ پاکستان میں جو بھی اقدام کرتے تھے اس میں امریکا کی مرضی یا اس کا حکم شامل ہوتا تھا۔ امریکا ابتدا ہی سے یہ چاہتا تھا کہ پاکستان کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ نکال کر اسے ’’عوامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بنادیا جائے اور یہ اسلامی ملک کے بجائے ایک سیکولر ملک بن جائے۔ جنرل ایوب خان نے اس کام کا بیڑا اُٹھایا اور اپنی خانہ ساز کابینہ میں ایک قرار داد کے ذریعے ’’اسلامی جمہوری پاکستان‘‘ کے نام کو تبدیل کرکے ’’عوامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کردیا گیا۔ قدرت اللہ شہاب جنرل ایوب خان کے سیکرٹری تھے ان سے کہا گیا کہ وہ اس حوالے سے ایک سرکاری نوٹیفکین تیار کریں اور اسے پریس میں دے دیا جائے۔ وہ ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ جنرل ایوب کی برہمی کی صورت میں قدرت اللہ شہاب اپنا استعفا بھی جیب میں ڈال کر لائے تھے وہ لکھتے کہ انہوں نے جنرل ایوب خان کو سمجھایا کہ اگر پاکستان کے نام سے اسلام کو نکالا گیا تو قیام پاکستان کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا اور پاکستان کا وجود ایک سوالیہ نشان بن جائے گا۔ آخر بحث و تمحیص کے بعد جنرل ایوب ان کی بات مان گئے اور نوٹیفکیشن کا اجرا روک دیا گیا۔ ’’شہاب نامہ‘‘ میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ایک ادھوری کہانی ہے، اصل کہانی یہ ہے کہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کے بجائے ’’عوامی جمہوریہ‘‘ بنانے کی خبر عام ہوچکی تھی اور جماعت اسلامی نے اس کے خلاف ایک مضبوط رائے عامہ تیار کرلی تھی جس دن اس کا سرکاری اعلان ہوتا اس دن اس کے خلاف اتنا شدید عوامی احتجاج ہوتا کہ پاکستان کے درودیوار لرز اُٹھتے اور ایوب حکومت کی جان کے لالے پڑ جاتے۔ انٹیلی جنس اداروں نے اپنی رپورٹ حکومت کو دے دی تھی۔ چناں چہ ایوب خان ڈر گئے اور اپنی حکومت کو بچانے کے لیے پاکستان کو سیکولر ڈیکلیئر کرنے سے باز رہے‘‘۔
ہمارے دوست سانس لینے کے لیے چند ثانیے کے لیے رُکے پھر بولے ’’یہ نہ بھولیے کہ مولانا مودودی کو سزائے موت سنانے والی عدالت بھی فوجی تھی اگر اسلامی ملکوں کا دبائو آڑے نہ آتا تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکا کے اشارے پر مولانا مودودی کا کام تمام کرچکی ہوتی۔ یہ بات سمجھ لیجیے کہ امریکا آپ اسے عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی کہہ سکتے ہیں ابتدا ہی سے پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کررہا ہے۔ پاکستان اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن کے سبب امریکا کے لیے بہت اہم ہے اور امریکی حکام برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان کا نظام اور حکومتیں اس کی تابع رہیں۔ وہ پاکستان میں کسی صورت بھی اسلام کا نفاذ نہیں چاہتا۔ اس حوالے سے وہ کسی رعایت کا قائل نہیں ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن ایک دین دار شخص ہیں انہوں نے اپنے اوپر اسلام کا لیبل تو لگا رکھا ہے لیکن ان کی سیاست سیکولر ہے۔ وہ سیکولر طاقتوں کے ساتھ اتحاد کرنے اور ان کے ساتھ اقتدار میں شریک ہونے کے قائل ہیں۔ وہ اسلام کا نام تو لیتے ہیں لیکن نفاذ اسلام کے مطالبے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ یہ تمہید ہم نے اس لیے باندھی ہے کہ پرویز مشرف کے زمانے میں وہ بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں امریکا کو بھی اپروچ کیا تھا اور اسے اپنی وفاداری کا یقین دلایا تھا لیکن امریکا نے ان کی حمایت سے انکار کردیا اس لیے کہ ان کا حلیہ شدت پسند مسلمانوں جیسا ہے اور بادی النظر میں وہ پکے مسلمان معلوم ہوتے ہیں اور ان سے بعید نہیں کہ وہ اقتدار میں آئیں تو نفاذ اسلام کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی کر بیٹھیں اور امریکا یہ رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ پاکستانی اسٹیبلمنٹ بھی یہ رسک لینے کی روادار نہیں ہے، اس نے جنرل باجوہ کے دور میں جب ’’عمران پروجیکٹ‘‘ شروع کیا تو عمران خان کو صاف بتادیا گیا کہ وہ اسلامی کارڈ تو کھیل سکتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کے ساتھ سیاسی اتحاد نہیں کرسکتے۔ جماعت اسلامی انہیں ایک اچھا سیاستدان سمجھتی تھی اور خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرچکی تھی۔ اس حکومت میں سراج الحق وزیر خزانہ تھے جن کی کارکردگی کو عالمی سطح پر سراہا گیا تھا لیکن 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو جماعت اسلامی کو ساتھ ملانے سے روک دیا گیا جس کا نتیجہ پی ٹی آئی کے حق میں بہت برا نکلا۔ عمران خان نے ’’ریاست مدینہ‘‘ کا اسلامی کارڈ تو کھیلا لیکن وہ سارے کام کیے جن سے ریاست مدینہ انہیں روکتی تھی۔ وہ خود بھی بدنام ہوئے اور اسلام کو بھی بدنام کیا‘‘۔
ہم نے اپنے دوست سے پوچھا ’’جنرل ضیا الحق کے بارے میں کیا خیال ہے کیا وہ بھی جماعت اسلامی کے خلاف تھے‘‘؟
وہ مسکرائے ’’جنرل ضیا الحق ذاتی طور پر دین دار آدمی تھے لیکن چونکہ وہ بھی امریکا کے زیر اثر تھے اور امریکا کی حمایت سے انہوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اس لیے وہ جماعت اسلامی کے سیاسی رول کے خلاف تھے۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق نے کراچی میں جماعت اسلامی کی حکمرانی کو ختم کرنے کے لیے ایم کیو ایم کو تخلیق کیا جس نے زور پکڑتے ہی کراچی میں جماعت اسلامی کے خون کی ندیاں بہا دیں۔
ہم نے محترم دوست سے پوچھا ’’جنرل پرویز مشرف کے دور میں متحدہ مجلس عمل کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ یہ ایک دینی تنظیم تھی جس کا آئیڈیا جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے پیش کیا تھا اور اس میں مرکزی کردار بھی جماعت اسلامی کا تھا۔ قاضی حسین احمد متحدہ مجلس عمل کے صدر اور مولانا فضل الرحمن اس کے سیکرٹری تھے۔ یہ صوبوں میں برسراقتدار بھی رہی۔ جنرل پرویز مشرف کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا رویہ جماعت اسلامی کے ساتھ کیسا تھا؟‘‘
وہ بولے ’’متحدہ مجلس عمل کا آگے آنا محض حالات کے جبر کا نتیجہ تھا۔ مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے اور جماعت اسلامی کو نظر انداز کرکے پرویز مشرف کا کھیل کھیلتے رہے اور اس کے عوض ذاتی فوائد حاصل کیے۔ قاضی حسین احمد اس صورت حال سے اتنے ضِق ہوئے کہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ یہ انکشاف بھی آپ کے لیے حیرت انگیز ہوگا کہ قاضی صاحب کے بعد سید منور حسن امیر جماعت منتخب ہوئے تو ان کا نہایت بے باک اور نڈر رویہ نہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو قابل قبول تھا، نہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو اور ایک مرحلہ ایسا آیا تھا جب عالمی اسٹیبلشمنٹ نے مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کو ٹھکانے لگانے کے بعد پاکستان میں جماعت اسلامی کو بھی کرش کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
وہ خاموش ہوئے تو ہم نے پوچھا ’’اب کیا امکانات ہیں کیا کبھی جماعت اسلامی اقتدار میں آسکتی ہے‘‘
وہ مسکرائے اور کہنے لگے ’’اتنا کچھ سننے کے باوجود آپ کا یہ سوال بہت بے کل معلوم ہوتا ہے ہاں کبھی پاکستان کو آزادی نصیب ہوئی اور عوام کے ووٹ کو عزت ملی تو یہ خواب بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ فی الحال یہی بہت ہے کہ جماعت اسلامی قومی سیاست میں متحرک ہے اور قوم کو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ اور یہ طویل گفتگو اپنے انجام کو پہنچی۔