ای او بی آئی کی میچنگ گرانٹ بحال کی جائے

725

ذوالفقار علی بھٹو سے ہمیں لاکھ سیاسی اختلافات ہوں مگر وہ اپنی زندگی میں دو کام ایسے کر گزرے ہیں جو ان کی بخشش کا سامان ہو سکتے ہیں ان میں اولین ختم نبوت کے بل پر دستخط جو ان کی عاقبت سنوار سکتا ہے دوسرے ای او بی آئی کا قیام جو ان کے لیے ایک صدقہ جاریہ ہے۔ ای او بی آئی سے قبل پنشن کا لفظ صرف سرکاری ملازمین کے لیے مختص تھا لیکن ای او بی آئی نے نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو بھی معزوری کی صورت یا ملازمت کی تکمیل پر پنشن کا حق دار قراردیا اور اس کی فنڈنگ کے لیے ملازمین کی تنخواہ سے ایک فی صد اور کارخانے دار کی جانب سے پانچ فی صد اور اس کے مساوی رقم حکومت پاکستان کو دینے کا پابند کیا گیا ابتدا تو بہت اچھے انداز میں ہوئی اور پھر ای او بی آئی کے مخلص اور مزدور دوست کارکنان اور دیانت دار افسران کی بدولت جلد ہی یہ ادارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا اور ایک شجر سایہ دار کی صورت اختیار کر گیا یہ ادارہ دن دونی اور رات چوگنی ترقی کر سکتا تھا کہ پھر پیپلز پارٹی کے دور (1996) میں اس کی میچنگ گرانٹ بند کر کے ایک فائنانس بل کے ذریعے صرف ایک لاکھ روپے ماہانہ جی نہیں سالانہ مقرر کر دی گئی ناقدین تو اس کو اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مثال دیتے ہیں مگر ہم ایک تلخ حقیقت بیان کرتے ہیں اس وقت ایک پنشنر کی رقم ماہانہ 10 ہزار روپے مقرر ہوئی ہے اس طرح سے ایک پنشنر کی سالانہ رقم ایک لاکھ بیس ہزار روپے بنتی ہے یعنی حکومت کی جانب سے ایک پنشنر کی کل رقم کے مساوی رقم بھی نہیں دے رہی جبکہ پنشنرز کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ ہے قانون کے مطابق آج کے حساب سے 40 ارب روپے میچنگ گرانٹ بنتی ہے بظاہر تو یہ ایک بڑی رقم دکھائی دیتی ہے مگر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم کے مقابل کچھ بھی نہیں۔ بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 450 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس کے مقاصد صرف سیاسی ہیں یعنی نوٹ دو ووٹ لو جبکہ ای او بی آئی صرف 05 لاکھ افرادکی نہیں بلکہ ان کے زیر کفالت افراد کی بھی کفالت کررہا ہے جبکہ اس رقم سے ایک پنشنرز کی اپنی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتی ایک جانب پنشنرز کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی پوری دوائیاں بھی نہیں خرید سکتے اور ادھر ای او بی آئی کے ملازمین اور افسران بڑی بڑی تنخواہوں کے ساتھ بھاری مراعات بھی لے رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے دور ہی میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ای او بی آئی کو صوبوں میں منتقلی کا فیصلہ ہوا وہ تو وفاق آڑے آگیا ورنہ کم از کم سندھ میں تو اس کی لوٹ مار ہوچکی ہوتی پھر صوبائی حکومتوں نے خزانہ ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو کارخانے داروں کو اس کی فنڈنگ روکنے پر اکسایا مگر یہاں عدلیہ نے ای او بی آئی کو وفاق کا ادارہ قرار دے کر آجروں کو کنٹریبیوشن جاری رکھنے کے احکامات جاری کر دیے اس وقت بھی آجروں کی جانب سے کنٹریبیوشن میں گھپلے جاری ہیں جو کہ ای او بی آئی ہی کے ملازمین کے تعاون کا نتیجہ ہیں اس کو درست کرنا حکومت کا کام ہے مگر یہاں تو خود حکومت ہی فریق بنی ہوئی ہے اور اربوں کی جگہ صرف ایک لاکھ روپے سالانہ ادا کرے گی قابل مذمت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنے حصے کی رقم یعنی میچنگ گرانٹ فوراً بحال کرے۔ ای او بی آئی پنشنرز ویلفیئر ایسوایشن (رجسٹرڈ) المعروف ایپوا کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کو میچنگ گرانڈ کی بحالی۔ کے لیے خط لکھا گیا ہے جو ایک اچھا قدم ہے ہم یہ بتاتے چلیں کہ عدالت عظمیٰ کے پاس عوامی مسائل اور غریب غربا کے لیے وقت نہیں ہے ورنہ زیرے التوا مقدمات کی تعداد 57 ہزار نہ ہوتی عدالت عظمیٰ کے پاس سیاسی معاملات نپٹانے کے لیے دن ہی نہیں رات کا بھی وقت ہے مگر غریب غربا کے لیے کوئی گنجائش نہیں اگرعدالت عظمیٰ کو ای او بی آئی کے غریب پنشنرز سے ہمدردی ہوتی تو سابق چیرمین ای او بی آئی ظفر گوندل 40 ارب روپے کی کرپشن کر کے آرام نہ فرما رہے ہوتے اور عدلیہ منتظر ہے ان کے آخری وقت کی کہ ان کے مرتے ہی کیس ختم پیسہ ہضم جیے بھٹو۔